افغانستان: طالبان کا صوبہ نمروز کے دارالحکومت پر قبضہ

مسلسل حملوں اور طویل محاصرے کے بعد ایرانی سرحد سے متصل صوبے نمروز کا شہر زرنج اب طالبان کے کنٹرول میں ہے جنہوں نے اسے ایک اہم فتح قرار دیا ہے

افغان صوبے ہرات میں فوجی تعینات جہاں سکیورٹی فورسز طالبان کے ساتھ  لڑ رہی ہیں (اے ایف پی فائل)

ہرات: افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران کئی ہفتوں سے جاری افغان طالبان کی پیش قدمی میں اب انہوں نے اپنے پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔

کئی حملوں اور طویل محاصرے کے بعد ایرانی سرحد سے متصل صوبے نمروز کا شہر زرنج اب طالبان کے کنٹرول میں ہے جنہوں نے اسے ایک اہم فتح قرار دیا ہے اور دیہی علاقوں میں کئی کامیابیوں کے بعد اب اپنی نظریں شہروں پر جمائی ہوئی ہیں۔

زرنج صوبہ نمزوز کا انتظامی اور تجارتی مرکز ہے۔  

دوسری جانب عوامی شخصیات کے قتل بھی جاری ہیں اور گذشتہ روز کابل میں ایک اعلیٰ عہدیدار کا بھی قبل کیا گیا۔ طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اور عہدیداروں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔

جنگجوؤں نے جوزجان میں بھی پیش قدمی کی ہے، جہاں انہوں نے مخالف ملیشیا کے لیڈر عبدل رشید دوستم کے گھر اور رہائش گاہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

تاہم وہ اب تک اہم شہروں قندھار، ہرات اور لشکر گاہ پر قبضہ نہیں کر پائے ہیں جہاں حکومتی فورسز ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ہرات میں خاص طور پر مقامی طالبان مخالف جنگجو اسماعیل خان کی سربراہی میں مقامی میلیشیاوں کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔

تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے اس بات کا فائدہ اٹھایا کہ نمروز کی سکیورٹی پر تعینات حکومتی فورس 205 مائےوند کور ہلمند منتقل کر دی گئی ہے اور ان کی جگہ فی الحال کسی اور فورس کو نہیں بھیجا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی اہلکار کابل کی جانب سے امداد کے فقدان پر نالاں ہیں۔ نمروز کی صوبائی کونسل کے سربراہ حاجی باز محمد ناصر کا کہنا ہے کہ فیصلہ کیا گیا کہ طالبان کو اندر آنے دیا جائے تاکہ شہریوں کی اموات نہ ہوں۔ انہوں نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ صوبائی حکومت کے اراکین کو ان کے خاندانوں سمیت شہر چھوڑ کر ایران جانے کی اجازت دی گئی۔

ایک اعلیٰ افغان سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ محدود وسائل میں اہم سٹریٹجک فیصلہ کرنا ضروری تھا اور لشکرگاہ کو محفوظ رکھنا ترجیح تھی۔

ان کے بقول زرنج، کو ملک کے دور دراز علاقے میں ہے، کو مستقبل میں طالبان سے واپس حاصل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے مثال دی کہ 2016 میں طالبان شمالی شہر قندوز پر قابض ہوئے تھے مگر پھر اس پر کنڑول برقرار رکھنے میں ناکام رہے تھے۔

طالبان نے سوشل میڈیا پر گورنر کی رہائش گاہ کے باہر اپنے جنگجوؤں کی تصاویر کے ساتھ ایک بیان میں کہا: ’یہ شروعات ہے، دیکھنا کیسے جلد صوبے ہمارے قبضے میں آتے ہیں۔‘

دیگر تصاویر میں عام عوام کو سرکاری عمارتوں کو لوٹتے ہوئے دیکھا گیا۔

طالبان نے ایسی ویڈیوز بھی پوسٹ کی جن میں گورنر کے کمپاؤنڈ میں مسلح جنگجوؤں کو چلتے ہوئے دیکھا گیا اور عقب میں وہ دفاتر تھے جہاں سرکاری افسران بیٹھا کرتے تھے۔

انہوں نے حکومت کے میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی جو جمعے کی نماز کے بعد گھر واپس آتے ہوئے فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔

سابق صحافی اور 2016سے 2020 تک نائب صدارتی ترجمان رہنے والے مینہ پال افغانستان میں میڈیا اور سفارتی ہلقوں میں جانی مانی شخصیت تھے۔ وہ اپنے سرکاری عہدے اور ٹوئٹر کو طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

ایک حالیہ مہم میں انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ ہرات کے لوگوں کی طرح سٹرکوں پر نکلیں اور طالبان کے خلاف اللہ اکبر کے نعارے لگایں۔

مینہ پال کے قتل سے قبل گذشتہ ہفتے کابل میں ایک خود کش بم دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

ایک افغان صحافی جنہیں طالبان سے جان کی دھمکیاں مل چکی ہیں نے کہا: ’اب ہم خوف زدہ ہیں۔ وہ ہمیں مار کر چپ کروانا چاہتے ہیں۔ یہ دہشت گردی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا