افغانستان میں گذشتہ ایک ہفتے کی ڈرامائی تبدیلیوں نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔
اس پر تو اچھی خاصی بحث ہو چکی ہے کہ امریکہ کے اچانک انخلا کے بعد تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے والی افغان فوج لڑے بغیر کیوں اور کیسے شکست کھا گئی لیکن اس وقت بساط پر بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ اگلی چال کون اور کیا چلے گا؟
چار سوالات اہم ہیں جن پر طاقت کے ایوانوں میں بحث تو ہو رہی ہے لیکن ان کے جواب اتنے آسان نہیں۔ اس لیے پریشانی بھی نظر آ رہی ہے۔
پہلا سوال تو یہ کہ طالبان آ بھی گئے۔ اب آگے کیا کرنا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر طالبان انسانی بالخصوص خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی سلب کرنا شروع کرتے ہیں تو کیا انہیں دنیا تسلیم کرے گی؟ ظاہر ہے اس کا جواب نہیں میں ہے تو ایسے میں پاکستان کیا کرے گا؟
تیسرا اہم سوال جو زیر بحث ہے وہ یہ کہ عالمی برادری اور میڈیا ایک بار پھر افغان طالبان کو پاکستان کے ساتھ جوڑنا شروع کر چکا ہے۔ اس کی شدت شاید ابھی تو کم ہے کیوں کہ اس وقت توجہ امریکہ کے افغانستان میں انخلا کے ’سنگین‘ غلط فیصلے پر ہے۔ قوی امکان ہے کہ اس بیانیے میں آگے چل کر مزید شدت آئے گی، جسے ٹالنا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ تو اس وقت پاکستان کی حکمتِ عملی کیا ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ ہم تو کہہ رہے ہیں ’طالبان بدل چکے ہیں‘ مگر دنیا اس بات پر اور ہماری بات پر اعتبار کیسے کرے گی؟
ان چار سوالات پر بحث مباحثہ ہو رہا ہے اور ان صحافیوں تک کو سنا جا رہا ہے جنہیں عموماً اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے اور وہ پاکستان کی افغان پالیسی کے شدید ناقد بھی رہے ہیں۔ ان چاروں سوالات کے جواب دینے کی کوشش میں اندازاہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت تیزی سے بدلتی صورت حال کے لیے پاکستان کتنا تیار ہے۔
آگے کرنا کیا ہے؟
کابل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد دو اہم پیش رفت ہوئیں۔ ایک تو سابق صدر حامد کرزئی نے عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار پر مشتمل تین رکنی قومی مفاہمتی کونسل کا اعلان کیا جسے طالبان نے فوراً مسترد کر دیا۔ لیکن پاکستان نے اسے مسترد کرنے کی بجائے اسے ’ایک دروازہ کھلا‘ رکھنے کا عمل کہا ہے۔
دوسری اہم پیش رفت نان پشتون افغان قیادت کی پی آئی اے کی خصوصی پرواز کے ذریعے پاکستان آمد اور اہم یہاں ملاقاتیں ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس وفد کی افغان طالبان سے بھی ملاقات ہو اور عبوری سیٹ اپ کے لیے معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ مسئلہ تاہم یہ ہے کہ اس وفد میں ایسے رہنما شامل ہیں جو نہ صرف طالبان کے خلاف برسرِپیکار رہے ہیں بلکہ انہیں طالبان 20 سال میں افغانستان میں کرپشن اور لوٹ مار کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ اس بار ان کی صفوں میں ازبک تاجک ہزارہ سمیت تمام قومیتوں کی نمائندگی موجود ہے تو وہ کیوں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں جو کہ دو دہائیوں تک ان کے خلاف لڑتے رہے۔
یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ عبداللہ عبداللہ کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے لیکن یہاں بھی بات پیچیدہ اس لیے ہے کہ جس افغان رہنما سے مصالحت کی بات کی جائے اس کی پہلی شرط یہ ہی ہوتی ہے کہ اسے ہی بڑا عہدہ دیا جائے۔
بہرحال جو بھی ہو پاکستان کے لیے بہتری کی یہی صورت ہے کہ وہ خود پیچھے رہ کر اس عمل کو آگے بڑھائے تاکہ اسے ’افغان لیڈ‘ سمجھا اور پکارا جائے۔
کیا دنیا طالبان کو تسلیم کرے گی؟
گذشتہ دونوں اعلیٰ ترین حکومتی عہدیداروں سے ہونی والی گفتگو میں یہ سوال بار بار ابھر کر سامنے آیا اور اس بات پر تقریباً اتفاق رائے موجود ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اکیلا نہیں کرے گا۔ قوی امکانات اسی بات کے ہیں کہ خطے کے طاقتور ممالک کے ساتھ مل کر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
بتایا تو یہی جا رہا ہے کہ طالبان کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ انسانی حقوق جیسے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر دنیا انہیں تسلیم نہیں کرے گی۔ لیکن بڑا چیلنج یہی ہے کہ کیا طالبان انسانی حقوق جیسے معاملات پر پاکستان کی بات مانیں گے؟ اس کا جواب مثبت دیا جا رہا ہے لیکن یہاں یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ ’طالبان ہماری سنتے ضرور ہیں لیکن کرتے اپنی ہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ اسی طرح کی صورت حال گذشتہ ہفتے بھی پیدا ہوئی جب طالبان جلال آباد تک پہنچ چکے تھے۔ انہیں یہ واضح پیغام دیا گیا کہ کابل پر کسی صورت بزور طاقت قبضہ نہیں کرنا۔ طالبان کا جواب بھی مثبت آیا لیکن اس کے باوجود کسی کو یہ ضمانت نہیں تھی کہ طالبان خون خرابہ نہیں کریں گے۔
یہ بات تو طالبان مان گئے لیکن اسلامی امارات کا نام استعمال کرنے پر وہ اڑے رہے۔ نہ انہوں نے چین کی سنی، نہ روس کی اور نہ ہی پاکستان کی۔ حالانکہ ان تینوں ممالک نے ٹرائیکا پلس کے مشترکہ بیان میں اسلامی امارات کو نہ ماننے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے باوجود طالبان اپنی حکومت کے لیے اسلامی امارات کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
افغان طالبان کے پیچھے پاکستان ہی ہے؟
اس تیسرے نکتے پر بحث میں شدت بھی آتی جا رہی ہے۔ عالمی میڈیا افغان طالبان کو پاکستان سے جوڑ رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ ہماری اپنی پالیسیاں رہی ہیں لیکن اس وقت ہمارے وزرا طالبان کی فتح کو اپنے بیانات سے پاکستان کی فتح ہی ثابت کر رہے ہیں۔ امریکہ کو بقول پاکستانی قیادت ایک ’سکیپ گوٹ' یا قربانی کا بکرا چاہیے وہ کیوں نہ پاکستان کو فیس سیونگ کے لیے استعمال کریں؟
اہم وزرا کو کئی بار سختی سے تنبیہ کی گئِی ہے کہ وزیر خارجہ اور نیشنل سکیورٹی کے مشیر کے علاوہ کوئی وزیر یا مشیر افغانستان پر بات نہ کرے کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے وزرا کو بےتکے بیانات سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے دودھ کی رکھوالی پر بلے کو رکھا جائے۔
یہاں مسئلہ صرف بیانات کا نہیں بلکہ کنفیوژن کا بھی ہے کیونکہ ریاست بتا رہی ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن وزرا کے بیانات سے صاف جھلک رہا ہے کہ جیسے افغان طالبان تو ہمارے بھائی ہیں اور افغانستان کو ہم نے فتح کیا ہے۔
حکومت کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ وزرا کا ایک ایک غیر ذمہ دارانہ بیان پاکستان کے خلاف وہ عالمی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال ہو گا جس کا نتیجہ پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف، آئی ایف ایم، ورلڈ بینک اور سلامتی کونسل کو استعمال کر کے باقاعدہ پابندیوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
کیا طالبان بدل چکے ہیں؟
حالیہ دنوں میں بظاہر قدرے بدلے اور سلجھے ہوئے طالبان کا بیانیہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ آج تو امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی جانب سے شائع ہونے والے ایک تجزیے میں بینجمن جینسن نے بھی لکھا کہ ’آج کے طالبان ماضی کے طالبان کی طرح نہیں ہیں بلکہ آج کے طالبان اس قابل ہیں کہ وہ اپنی عسکری اور انتظامی صلاحیتوں اور آلات کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مجتمع کر سکیں۔‘
پاکستانی حکام بالخصوص وزیر خارجہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ طالبان اب بدل چکے ہیں، وزیر داخلہ کے بقول ایک سلجھا ہوا طالبان جنم لے چکا ہے۔ پاکستان کے اس موقف پر کڑی تنقید بھی ہوئی اور طالبان کے بدلے جانے کو خوش فہمی قرار دیا گیا۔
طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے آغاز ہی میں قندھار کے مزاحیہ اداکار خاشہ زوان کے قتل کا معاملہ اور ہلمند میں دو افراد کو بچوں کے اغوا کے الزام میں سرعام پھانسی کی سزا دینا اور ساتھ میں چند علاقوں میں گھر گھر جا کر سابق حکومت کے اہلکاروں کو ہراساں اور بعض جگہ قتل کرنے کی اطلاعات بھی تکلیف دہ طور پر سامنے آئی ہیں۔
پاکستان کے پاور کوریڈورز میں بہرحال یہ سوچ موجود ہے کہ طالبان واقعی بدل چکے ہیں اور زیادہ تر جو ویڈیوز سامنے آرہی ہیں وہ پرانی ہیں۔ وہ اس تنقید کا جواب یہ دیتے ہیں کہ 'طالبان بدلے نہیں تو سدھر ضرور گئے ہیں۔‘
نوٹ: معروف اینکر اور سینیئر صحافی عادل شاہ زیب کی یہ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے پہلی تحریر ہے۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔