کیا احمد کی بیٹی سکول جا سکے گی؟

کابل میں احمد کی بیٹی کا سکول بند ہے۔ شاید کچھ دن تک کھلے۔ اس کی بیٹی پھر واپس سکول جا سکے گی لیکن کب تک جا سکے گی، اس کا جواب احمد کے پاس نہیں ہے۔

کابل کے مضافات میں بچیاں سکول جا رہی ہیں۔ طالبان کے کابل پر قبضے سے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں (اے ایف پی)

میں احمد (فرضی نام) سے دو سال قبل بیجنگ میں ملی تھی۔ اس کا تعلق افغانستان سے تھا۔ وہ یہاں ایک یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اور بچے افغانستان میں ہی تھے۔ وہ یہاں اکیلا رہ رہا تھا۔

ہم اس کی گریجویشن تک کئی بار ملے۔ ہر ملاقات میں وہ اپنے خاندان بالخصوص اپنی چھ سالہ بیٹی کا ذکر بہت محبت سے کرتا تھا۔

ایک دن اس نے مجھے اپنی بیٹی کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں وہ روایتی لباس پہنے رقص کر رہی تھی۔ ویڈیو دکھاتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک چمک تھی۔ وہ اپنی بیٹی کا رقص دیکھ کر حیران تھا۔ ہنستے ہوئے کہنے لگا، ’یہ اس نے کب سیکھا۔ مجھے کیوں نہیں پتہ چلا۔‘

اس دن وہ دیر تک اپنی بیٹی کے ہی بارے میں بات کرتا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کو ڈانٹا بھی تھا تاکہ وہ آئندہ رقص نہ کرے۔

میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، ’بس تھوڑا بہت کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا، ’اگر وہ اپنے گھر میں اپنی مرضی سے کچھ کر رہی ہے تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟‘

اس نے جواب میں کہا، ’تم نہیں سمجھو گی۔‘

ہم نے اس کے بعد اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کی لیکن اس کے بعد ہم جب بھی ملتے میں اس کی بیٹی کے بارے میں ضرور پوچھتی تھی۔

وہ اپنی بیٹی کو اچھی زندگی دینا چاہتا تھا۔ میں نے اس نے پوچھا کیا وہ اپنی بیٹی کو بھی اپنی طرح ملک سے باہر پڑھنے کے لیے بھیجے گا۔ اس نے کہا کہ وہ اس بارے میں وقت آنے پر سوچے گا۔

کچھ ماہ بعد احمد کی ڈگری مکمل ہو گئی تو وہ واپس چلا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتوار کو جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو مجھے پہلا خیال اس کا ہی آیا۔ میں نے فوراً اسے میسج کیا۔ احمد اور اس کے گھر والے خیریت سے تھے۔

اس نے بتایا کہ جس وقت طالبان اس کے شہر میں داخل ہو رہے تھے اس کی بیٹی اس کے گھر سے کچھ دور واقع اپنے سکول میں موجود تھی۔ احمد اپنے دفتر میں تھا۔ اسے نو بجے اپنی بیوی کا فون آیا۔ وہ زار و قطار رو رہی تھی۔ اس نے احمد سے کہا کہ وہ جلد از جلد ان کی بیٹی کو بحفاظت گھر لے کر آئے۔

احمد فوراً اپنی گاڑی لے کر بیٹی کے سکول کی طرف نکلا۔ راستے میں ٹریفک جام تھا۔ وہ اس میں پھنس گیا۔ فون پر سگنل بھی نہیں آ رہے تھے۔

ٹریفک سے نکلنے کے بعد وہ اپنی بیٹی کے سکول پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ سکول والوں نے بچوں کو چھٹی دے کر گھر بھیج دیا تھا۔ اس کی بیٹی پیدل ہی گھر چلی گئی تھی۔

احمد کو ٹریفک سے نکل کر گھر پہنچتے ہوئے مزید کچھ گھنٹے لگ گئے۔ اس کی بیٹی نے اسے بتایا کہ اسے راستے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ سڑک پر جگہ جگہ بم لگے ہوئے ہیں۔ وہ احتیاط سے چلے۔ اگر اس کا پاؤں پڑنے سے بم پھٹ گیا تو وہ مر جائے گی۔

میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ افغانستان سے نکلنے کا سوچ رہا ہے؟ اس نے کہا نہیں، وہ فی الحال وہیں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اگر طالبان نے لڑکیوں کو پڑھنے سے روکا تو وہ لازمی وہاں سے نکلنے کی کوشش کرے گا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ وہ طالبان کی حکومت میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا کیا مستقبل دیکھتا ہے۔ کیا وہ اپنی بیٹی کو باہر گھمانے لے جا سکے گا؟

اس نے بتایا کہ افغانستان میں حالات ہمیشہ ہی خراب رہے ہیں۔ وہ پہلے بھی اپنے گھر والوں کو لے کر باہر نہیں جاتا تھا۔

میں نے پوچھا کیا تمہاری بیٹی باہر جانے کی ضد نہیں کرتی۔ اس نے کہا، ’بہت ضد کرتی ہے لیکن میں اسے سمجھاتا ہوں کہ یہاں کے حالات مجھے اسے باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔‘

مجھے اب اس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے محتاط رویہ سمجھ آ رہا تھا۔ احمد نے کہا، ’ہم یہاں زندہ لاشوں کی طرح رہتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سب نارمل ہے۔ ہم عالمی طاقتوں کی بڑی گیم کا حصہ ہیں۔‘

طالبان کی حکومت میں اس کی بیٹی کا مستقبل کیا ہو گا، اس بارے میں اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ گرچہ طالبان نے اداروں کو اپنی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھنے کا کہا ہے لیکن لوگ ابھی اپنے اپنے گھروں تک محدود ہیں۔

احمد کی بیٹی کا سکول بھی بند ہے۔ شاید کچھ دن تک کھلے۔ اس کی بیٹی پھر واپس سکول جا سکے گی لیکن کب تک جا سکے گی، اس کا جواب احمد کے پاس نہیں ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو پڑھانا چاہتا ہے۔ اگر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تو وہ ملک چھوڑنے کی کوشش کرے گا۔

اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گیا تو اس کی بیٹی تعلیم کے ساتھ ساتھ رقص بھی کر سکے گی۔ پھر شاید وہ اسے ڈانٹا نہیں کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ