پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے دارالحکومت مظفرآباد میں بجلی کی پیداوار کے لیےشہر سے بہتے دریاؤں کا رخ موڑنےسے پیدا ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیےاحتجاجی دھرنے کو آج (جمعرات) دو ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور اب منتظمین کے بقول دھرنا ختم کرنے کے لیےان پر مختلف طرح سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
دریا بچاؤ تحریک نامی سول سوسائٹی گروپ نے شہر سے گزرنے والے دریائے نیلم اور جہلم کا رخ موڑنے سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی اور انتظامی مسائل کےحل کے لیے شہر کے مرکزی 'آزادی چوک' میں دھرنا دے رکھا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے 969 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل نیلم ۔ جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد شہرکے وسط سے بہنے والے دریائے نیلم میں پانی کا بہاؤ کم ہو گیا ہے جبکہ 1100 میگا واٹ کے کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے لیے دریائے جہلم کا رخ موڑنے کا کام اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔
احتجاجی دھرنے میں شامل دریا بچاؤ تحریک کے سرگرم کارکن فیصل جمیل کاشمیری کے مطابق یہ دونوں منصوبے شروع کرنے سے قبل حکومتِ پاکستان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت سے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ 'نیلم۔ جہلم منصوبہ شروع کرنے سے قبل واپڈا اور حکومت پاکستان نے یہاں کے لوگوں سے جو وعدےکیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور اب دوسرے دریا کا رخ موڑنے کی تیاری ہو رہی ہے۔'
ماہرین کے مطابق ،دریائے نیلم کا رخ موڑنے سےسردیوں کے موسم میں دریا میں پانی کل بہاؤ کے دس فیصد سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ دریا کے بہاؤ میں کمی سےنہ صرف آلودگی، بدبو اور تعفن میں اضافے کے باعث بیماریاں جنم لے رہی ہیں بلکہ زیر زمین پانی کی سطح میں گراوٹ اور شہر کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
فیصل جمیل کو اندیشہ ہے کہ دریائے جہلم کا رخ موڑنے کے بعد ان مسائل میں مزید اضافہ ہو گا اور شہر میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
دوماہ سے جاری دھرنے میں اب تک سینکڑوں افراد شریک ہو چکے ہیں جن میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیرکی چیدہ چیدہ سیاسی جماعتوں کی قیادت، وکلا، تاجروں ،صحافیوں اور طلبا کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بھی قابل ذکر تعداد شامل ہے۔ تاہم فیصل جمیل کے بقول ابھی تک حکام نے دھرنے کے شرکا کے ساتھ اُن کے مطالبات کے حوالےسے کوئی بات چیت نہیں کی۔
اس دوران دھرنے کے شرکا نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے اپنے خون سے احتجاجی کتبے بھی تحریر کیے۔
فیصل جمیل کا کہنا ہے: ہم نے انتظامیہ پر واضح کر دیا ہےکہ ہم ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرتے۔ ہمارے جائز مطالبات مان لیے جائیں اوران منصوبوں کی تعمیر کے سلسلے میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ دیکھادیا جائے تو ہم چلے جائیں گے، لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے یہاں بیٹھنے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔'
ڈپٹی کمشنر مظفرآباد بدر منیر کا کہنا ہے کہ دھرنے کے منتظمین سے بات چیت جاری ہے۔ اگرچہ وہ چوک کے درمیان گرین بیلٹ پر بیٹھے ہیں اور ٹریفک کے بہاؤ کو براہ راست متاثر نہیں کر رہے تاہم دھرنے کے باعث اردگردکے علاقوں میں مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول دھرنا شروع ہونے سے قبل انتظامیہ کو نوٹس ضرور ملا تھا تاہم اس کے لیے انتظامیہ یا حکومت نے کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا۔ بدر منیر پر امید ہیں کہ انتظامیہ طاقت کے استعمال کے بغیر ہی معاملہ حل کرلے گی۔
دریا بچاؤ تحریک نے دھرنا شروع کرنے سے قبل جو چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کیا تھا اس میں مطالبہ تھا کہ واپڈا کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شروع کیے گئے بجلی کے منصوبوں پر مقامی حکومت کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کیے جائیں۔ نیلم۔ جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تعمیرکے دوران تحفظ ماحولیات ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ مشروط اجازت نامے پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ 2011 میں جاری اس مشروط اجازت نامےکے مطابق دریائے نیلم میں سردیوں کے موسم میں کم از کم 60 کیومکسپانی چھوڑنا ضروری ہے جبکہ گذشتہ موسم سرما میں اس پانی کی مقدار 20 کیومکس سے بھی کم رہی۔
مشروط این او سی کے مطابق واپڈا مظفرآباد شہر میں 16 مقامات پر سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے علاوہ شہر کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے ری سائیکلنگ پلانٹ، دریا کی اطراف درخت لگانے اور شہر کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیےمصنوعی جھیلوں کی تعمیر کے لئے مقامی حکومت کو مالی وسائل فراہم کرنےکا پابند ہے۔
تاہم ابھی تک ان میں سے کسی منصوبے پر کام شروع کرنے کے لیے مالی وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مطالبہ ان دونوں منصوبوں میں مقامی بے روزگار نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دینے کا بھی ہے۔
واضح رہے کہ 1989 میں ابتدائی منظوری کے وقت نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کی کل لاگت کا تخمینہ 15 اعشاریہ 2 بلین روپے لگایا گیا تھا جبکہ 29 سال کے بعد یہ منصوبہ لگ بھگ 506 اعشاریہ 8 بلین روپے کہ لاگت سے مکمل ہوا اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی میگاواٹ لاگت 523 ملین روپے ہے جو کہ رائج الوقت لاگت کے بین الاقوامی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔