حزب اختلاف نے عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک کی قیادت کیسی ہونی چاہیے؟ لوگ تحریک کا حصہ بن بھی گئے تو اسے قائم رکھا جا سکے گا اور کون قائم رکھے گا؟
تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ رہنماؤں کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ تحریک کی شروعات زبردست کرتے مگر اسے قائم نہیں رکھ سکتے۔ کچھ رہنما ایسے بھی گزرے جو تحریک کی شروعات تو نہیں کر سکتے تھے مگر قائم رکھنے کی صلاحیت اُن کے اندر موجود تھی۔
دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب ’نقب فراموش‘ میں لکھا کہ محمد علی جناح تحریک جاری کر سکتے تھے مگر اُس کو قائم رکھنے کی صلاحیت ان میں بہت کم تھی۔
گاندھی کسی تحریک کو جاری اور قائم بھی رکھ سکتے تھے، مولانا محمد علی جوہر کے اندر بھی تحریک کو جاری کرنا اور قائم رکھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔
نہرو کسی بھی تحریک کے لیے لوگوں کو گھروں سے نہیں نکال سکتے تھے لیکن اگر لوگ نکلے ہوئے ہوں تو اس کو قائم رکھ سکتے تھے۔ علامہ مشرقی کے اندر تحریک جاری کرنے کی زبردست صلاحیت موجود تھی مگر قائم رکھنے کے حوالے سے وہ بالکل صفر تھے۔
انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان میں ایسی کوئی بڑی تحریک نہیں چلی جو ’خالصتاً‘ عوامی تحریک ہو۔ بھٹو کے خلاف پی این اے تحریک چلی تو مورخ نے لکھا کہ اس تحریک پر بھی دست شفقت عالمی سٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پاکستانی سٹیبلشمنٹ کا تھا۔
بھٹو حکومت کے مشیر رفیع رضا اپنی کتاب ’ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان 1976-77‘ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل دیکھ کر حیران ہوئے تھے کیونکہ اس وقت پارلمینٹ میں موجود اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔
ڈاکٹر خالد بی سعید اپنی کتاب ’پاکستانی پالٹکس: نیچر اینڈ ڈائریکشن‘ میں رقم طراز ہیں جب قومی اتحاد نے 1977 میں انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک پُرتشدد تحریک چلائی تو اس کی صفوں میں بڑی تعداد میں متوسط طبقے اور زیریں متوسط طبقے کے لوگ شامل ہوئے۔
قومی اتحاد نے بھٹو پر معشیت تباہ کرنے اور مخالفین کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا الزام عائد کیا تھا۔ بالکل آج بھی دو بڑی اپوزیشن جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمجھتی ہیں کہ ان کی قیادت پر بدعنوانی کے محض الزامات ہیں اور ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
زمینی حقائق پر بات کی جائے تو موجودہ حکومت کی پالیسوں کے نتیجے میں عوام کے اندر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ تحریک کی اُٹھان اُس وقت ہوتی ہے جب عوام اس میں شامل ہوتے ہیں۔ لوگ کسی لیڈر کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے دکھوں میں باہر نکلیں گے۔
ان میں وہ بھی شامل ہوں گے جن کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا، وہ بھی تحریک کا حصہ بنے گا جس کے پاس ضعیف والدہ کے علاج کے لیے پیسے نہیں، گیس اور بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے بعد وہ شہری بھی شامل ہوں گے جو یہ بل بھرنے سے قاصر ہیں۔
تحریک کی قیادت جن ہاتھوں میں دی گئی ہے جو وہاں بولے جہاں ان کے مفادات کو ذک پہنچی۔ ضیا دور میں وہ اپوزیشن میں تھے، بی بی شہید کے دور میں اُن کے ساتھ، نواز دور میں اُن کے ہم پیالہ اور تو اور مشرف دور میں وہ تو جنرل مشرف کے حامی بنے ہوئے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں انھیں پارلمینٹ سے باہر کر دیا گیا۔ انھیں عوام کا نہیں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ وہ باہر کیسے ہوئے؟
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو ادراک ہے کہ مارشل لاء کی صورت میں ملک بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ تحریک کی قیادت سمجھدار ہاتھوں میں دی جائے جو تحریک کو قائم بھی رکھ سکیں اور جن کے نزدیک اصول پسندی زیادہ اہم ہوں نہ کہ مفادات۔۔۔