انسانی تہذیب میں کانسی کے زمانے میں ریاست اور اس کا ادارہ وجود میں آیا اور اس کے ساتھ ہی رسم الخط کی ایجاد ہوئی۔ جب سیاسی، سماجی، ادبی اور تجارتی معلومات کو تحریر میں لایا گیا تو اس کی وجہ سے ہمارے پاس تاریخی ماخذ کا اضافہ ہوا، جن کی مدد سے تاریخ لکھنے میں سہولت ہوئی۔
چونکہ ریاست کے سربراہوں کا تعلق مردوں سے تھا اور انہی کے پاس سیاسی اور فوجی طاقت تھی اس لیے جو تاریخ لکھی گئی اس کا گہرا رابطہ طاقت سے رہا۔
حکمران طبقے اپنی طاقت کے اظہار کے لیے جنگ و جدل کو لازمی خیال کرتے تھے، لہٰذا ان کے کردار کی خوبیوں میں جن اوصاف کا ذکر ہوتا ہے وہ بہادری، شجاعت، دلیری اور جسمانی قوت کا ہوتا ہے اس لیے تاریخ بھی مردوں کے کارناموں کا مرقع ہو گئی۔
اس کے مقابلے میں عورت کے کردار کی جس طرح سے نمائندگی کی گئی اس میں اسے نازک، کمزور، ناتجربہ کار اور عقل و دانش سے بے بہرہ بتایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کی تاریخ سے عورت کوغائب کر دیا گیا۔
لیکن ہم تاریخ میں ان چند عورتوں کے بارے میں ضرور جانتے ہیں جنہوں نے اپنی نسوانیت کو ختم کرکے، مردوں کے طور طریق اور عادات کو اختیار کر لیا تھا۔
جب تاریخ میں رضیہ سلطان کا ذکر آتا ہے تو اس کی قدر، احترام اور عزت (وفات: 1240) اس لیے ہوتی ہے کہ وہ مردوں کی طرح لباس زیب تن کرتی تھی۔ گھوڑ سواری کرتی تھی، تیخ زنی میں ماہر تھی اور جنگوں میں حصہ لے کر اپنی بہادری اور شجاعت کو ظاہر کرتی تھی۔ انہی مردانہ خوبیوں کی وجہ سے چاندنی بی بی (وفات: 1599) جھانسی کی رانی (وفات: 1858) اور حضرت محل (وفات: 1879) مشہور ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیونکہ تاریخ پدرسری نظام کے تحت لکھی گئی اس لیے عورتوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا کم ہی موقع ملا اور اگر انہوں نے سیاست میں کوئی حصہ لیا تو اسے بھی مردوں کے معاملات میں دخل اندازی سمجھا گیا اور ان پر تنقید کی گئی، جیسے نور جہاں نے جب جہانگیر کی نااہلی کی وجہ سے سیاست میں حصہ لیا تو اس کی وجہ سے مغل امرا میں سخت ناراضی پھیلی۔
جب عورتوں کو مردوں کی تاریخ سے خارج کر دیا گیا تو معاشرے میں ان کی حیثیت کمتر ہوتی چلی گئی۔ اس لیے جدید دور میں 1960-70 کی دہائیوں میں عورتوں نے اس تاریخ کو چیلنج کیا اور اس کے مقابلے میں عورتوں کی تاریخ لکھنے کی ابتدائی ہوئی۔
جب عورتوں نے اپنے ماضی کی جانب دیکھا تو انہیں اپنے ماضی میں کوئی شان و شوکت نظر نہیں آئی۔ ان کا یہ ماضی تابناک نہیں، بلکہ تاریک تھا۔ جنگوں میں انہیں کنیزیں بنایا گیا۔ بادشاہوں کے حرم میں بطور ملکیت رکھا گیا، ان کا جنسی استعمال کیا گیا تو انہوں نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا بھی احساس کیا۔
ایک جانب امرا خواتین تھیں جنہیں آزادی کے علاوہ زندگی کی آسائشیں میسر تھیں۔ دوسری جانب نچلے طبقے کی عورتیں تھیں جو غربت اور مفلسی میں گزارا کرتی تھیں۔ جب عورتوں کی تاریخ لکھنے کا سوال آیا تو اشرافیہ کے خاندان کی عورتوں کے بارے میں تو کافی معلومات ملیں، لیکن نچلے طبقے کی عورتوں کے بارے میں لگی لپٹی روز مرہ کی زندگی کے علاوہ اور کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی دور میں عورتوں کی تاریخ بھی امرا خواتین کی تاریخ ہو گئی۔ جب اس پر اعتراضات ہوئے تو مورخ عورتوں نے نچلے درجے کی خواتین کی تاریخ کے ماخذ تلاش کیے۔ لوک کہانیوں کی تو ضرب المثال کی مدد سے معاشرے میں ان کے مقام کا تعین کیا۔ امرا کے گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں، کھیتوں میں کام کرنے والی کسان عورتیں، گھریلو کام کرنے والی خواتین جب ان کو تاریخ کا حصہ بنایا گیا توعورتوں کی تاریخ مکمل ہوئی۔
لہٰذا مورخ عورتوں نے جب اپنی تاریخ کی طرف توجہ دی تو ان کے سامنے کئی سوالات تھے۔ کیا وہ اپنی تاریخ کو مردوں کی تاریخ سے ملا کر لکھتیں، تاکہ یہ ثابت کریں کہ انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی میں صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں، بلکہ اس میں عورتوں کا بھی برابر کا حصہ ہے اور اپنے اس حصے کو تاریخ میں سامنے لے کر آئیں، تاکہ مردوں کی تاریخ کی جو اجارہ داری ہے اس کا خاتمہ ہو؟
دوسرا نقطۂ نظریہ تھا کہ عورتوں کی تاریخ کو مردوں سے علیحدہ کرکے لکھا جائے اور عورتوں نے جو معاشرے کی ترقی میں حصہ لیا اس کی تفصیلات بتائی جائیں جیسے تعلیم، صحت، اولاد کی تربیت، جنگ و خونریزی سے دوری۔
امن کی حامی اور عوامی تحریکوں میں حصہ لینے والی اس نقطہ نظر سے تاریخ میں عورتوں کی اہمیت کا احساس پیدا ہو گا، چنانچہ فیمینسٹ مورخوں نے مردوں اور عورتوں کے کردار کے درمیان فرق دور کیا اور اس غلط فہمی کا ازالہ کیا کہ عورتیں نسوانی طور پر کمزور اور کم عقل ہوتی ہیں۔
موجودہ دور میں عورتوں کی تحریکوں کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں عورتوں کی تاریخ کو پڑھانا شروع کیا گیا اور اب ان کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق بھی ہو رہی ہے۔
عورتوں کی تاریخ میں تاریخ کے مضمون کو ایک نئی جہت دی اور معاشرے کا وہ طبقہ جو خاموشی سے سماجی روایات، معاشی ترقی اور علم و ادب میں حصہ لے رہا تھا اسے زبان دی تاکہ وہ نہ صرف اپنے ماضی کی نئے سرے سے تشکیل کرے، بلکہ تاریخ میں اپنے کارناموں کو سامنے لے کر آئے، تاکہ اس کا سماجی مرتبہ بلند ہو اور تاریخ کی روشنی میں اس کے لیے عزت و احترام کے جذبات پیدا ہوں۔
برصغیر کی تاریخ میں جتنی سیاسی تحریکیں اور سیاسی راہنما ہیں وہ سب مردوں کی تاریخ میں آتے ہیں اور عورتوں کو پس منظر میں رکھ کر سیاسی تحریکوں میں ان کی شمولیت کو نظرانداز کر دیا گیا۔
جب یہ ادھوری تاریخ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے تو عورتوں کے خلاف تعصب کا پیدا ہونا منطقی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو بطور سیاسی رہنما کے سامنے آئیں تو ان کی زبردست مخالفت کی گئی، اگر عورتوں کی تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تو اسی صورت میں ان کو مردوں کے برابر مقام ملے گا۔
پاکستان میں اگرچہ عورتوں کی کئی تحریکیں ہیں جو عملی طور پر فعال بھی ہیں، مگر اب تک عورتوں کی کوئی جامع تاریخ نہیں لکھی گی جو مردوں کی بالادستی کو چیلنج کرتی ہو۔
ذہن کو بدلنے کے لیے تاریخ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نعرے وقتی طور پر جذبات کو مشعل تو کرتے ہیں، مگر ذہنی طور پر کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ اکثر یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کیا عورت مورخ ہی عورتوں کی تاریخ لکھ سکتی ہے، کیونکہ وہ عورت کی ذات سے آگاہی رکھتی ہے، لیکن تحقیق کے کاموں کے لیے اب مرد مورخ ہی عورتوں کی تاریخ لکھنے کا کام کر سکتے ہیں۔
اس لیے جامعات کے تاریخ کے شعبوں میں نہ صرف عورتوں کی تاریخ پڑھائی جائے، بلکہ اس پر تحقیق بھی کی جائے خاص طور سے بتایا جائے کہ جاگیردارانہ اور سجادہ نشینوں کے ماحول میں عورت کی کیا حیثیت ہے۔
شہر کی عورتوں اور دیہاتی عورتوں کے درمیان تاریخی فرق ہے اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ جب تک تاریخ کے یہ پہلو عورتوں کے نقطۂ نظر سے نہیں لکھے جائیں گے، عورت اپنے باعزت مقام سے محروم رہے گی۔