طالبان رہنماؤں نے ہفتے کو کابل ہوائی اڈے کے باہر اضافی فورسز تعینات کر دی ہیں تا کہ دو روز پہلے تباہ کن حملے کے بعد لوگوں کو دوبارہ جمع ہونے سے روک جا سکے۔
خبر رساں ادرے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان نے ایسے تمام افغان شہریوں کے لیے کابل کا ہوائی اڈا سیل کر دیا جنہیں ملک سے باہر جانے کی امید تھی۔
دوسری جانب زیادہ تر نیٹو ممالک نے 20 سال تک افغانستان میں قیام کے بعد اپنی فوجوں کے انخلا کا آپریشن مکمل کر لیا ہے۔
نیٹو کی جانب سے طیاروں کے ذریعے عجلت میں کیے جانے والے انخلا کی رفتار بتدریج کم ہو گئی ہے جب کہ مغربی ممالک کے رہنماؤں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے بہت سے شہری اور مقامی اتحادی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
ہوائی اڈے کی طرف جانے والے سڑکوں پر نئی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں جن میں سے بعض پر وردی میں ملبوس طالبان تعینات ہیں۔ ان طالبان کے پاس افغان فوج سے چھینی گئی گاڑیاں اور عینکیں بھی جن کی مدد سے اندھیرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں: شیر محمد ستانکزئی
طالبان رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی کا اپنے حالیہ انٹرویو میں کہنا ہے کہ بھارت اس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور ہم ان کے وسیع تجارتی اور اقتصادی تعلقات چاہتے ہیں۔
افغانستان کے ٹی وی چینل ملی ٹیلیویژن کو آج دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے تھے ہم چاہتے ہیں کہ وہ اسی طرح جاری رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی بھارت کے ساتھ تجارت پاکستان کے راستے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ ’ہمیں ہوائی تجارت بھی بھارت کے ساتھ کھلی رکھنی ہو گی۔‘
’ہم اپنے تجارتی، اقتصادی اور سیاسی روابط میں بھارت کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے دوران انٹرویو اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’بھارت کے ساتھ ان سب معاملات پر کام کیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں پاکستان قوم کا بہت شکر گزار ہوں کے انہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ہمارے مہاجرین نے وہاں اتنے سال آرام اور سکون کی زندگی بسر کی۔‘
’ہم پاکستان کے ساتھ بھی، جو ہمارا ہمسایہ ہے، اچھے تعلقات رکھنے کی توقع کرتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہمارے بیچ دوستی تھی اسی طرح اب بھی ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے تعلقات مثبت ہوں گے اور عدم مداخلت سیاست پر دونوں عمل کریں گے۔
غنی یوٹیوب پر اپنی سابقہ ویڈیوز دیکھیں، ملک سے بھاگنا شرمناک ہے: امر اللہ صالح
معزول افغان صدر محمد اشرف غنی کے نائب صدر امر اللہ صالح نے اشرف غنی پر ملک نہ چھوڑنے کا وعدہ توڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔بی بی سی پشتو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں امر اللہ صالح نے کہا کہ اشرف غنی نے ان سے کہا تھا کہ اگر طالبان سیاسی تصفیہ تک نہیں پہنچے تو وہ محل میں مارے جانے کے لیے تیار ہیں۔
امر اللہ صالح نے کہا ’سابق صدر کو میری سفارش یہ ہے کہ وہ یوٹیوب پر جائیں اور اپنی سابقہ تقریریں سنیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے 'یہ مت پوچھو کہ ملک نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے۔ پوچھو کہ تم نے ملک کے ساتھ کیا کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ایک روشن خیال بادشاہ امان اللہ خان کی مثال دیتے جو ملک سے بھاگ گئے اور لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا۔‘
امر اللہ صالح کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کے لیے بھاگنے سے بہتر تھا کہ وہ طالبان کے ہاتھوں پکڑے جاتے، کیونکہ اس وقت لوگ ان کے گرد جمع ہوتے اور عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالتی۔
صالح کے مطابق ، وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ معزول صدر محمد اشرف غنی نے لوگوں سے ان الزامات کے بارے میں کھل کر بات کیوں نہیں کی جو لوگوں نے ان پر ملک چھوڑنے کے بعد لگائے ہیں،
معزول افغان صدر اشرف غنی 15 اگست کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے قبل دارالحکومت چھوڑ گئے۔
اسی رات انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ ملک میں خونریزی روکنے کے لیے انہیں کابل چھوڑنا پڑا۔
اشرف غنی نے لکھا ’اگر میں ٹھہرتا تو شاید طالبان کے ہاتھوں مارا جاتا اور تاریخ غیر ملکیوں کے ہاتھوں ایک اور افغان رہنما کی ہلاکت کا مشاہدہ کرتی۔‘
اگلے چند دنوں تک ان کا ٹھکانہ نامعلوم تھا اور اس پر کافی بحث رہی۔ بعد ازاں ان کے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو شائع ہوئی جس میں اعلان کیا گیا کہ وہ متحدہ عرب امارات میں ہیں۔
امریکہ کا افغانستان میں داعش خراسان کے ’منصوبہ ساز‘ پر ڈرون حملہ
امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس نے افغانستان میں داعش کی خراسان شاخ کے ایک ’منصوبہ ساز‘ کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا ہے۔
واضح رہے کہ داعش نے جمعرات کو کابل ایئر پورٹ پر مہلک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 13 امریکی اہلکاروں سمیت 175 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے کیپٹن بل اربن نے جمعے کو ایک بیان میں کہا: ’ڈرون حملہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں کیا گیا اور ابتدائی اشارے ہیں کہ ہم نے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاکت نہیں ہوئی۔‘
امریکہ نے طالبان کی حکومت فوری طور پر تسلیم کرنے کا امکان رد کر دیا
امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کرنے کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا وہ اگلے ہفتے فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں سفارتی موجودگی برقرار رکھے گا یا نہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے جمعے کو نامہ نگاروں کو بتایا: ’میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ امریکہ یا ہمارے کسی بھی بین الاقوامی شراکت دار کی طرف سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں کوئی جلدی نہیں۔‘
واشنگٹن کا اصرار ہے کہ مستقبل میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال نہ ہونے دیں اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ 31 اگست کو تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکہ ملک میں سفارتی موجودگی برقرار رکھے۔
پرائس نے کہا: ’رابطوں کے دوران انہوں (طالبان) نے ہمیں واضح کر دیا ہے کہ وہ ملک میں امریکی سفارتی موجودگی کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ طالبان پر منحصر نہیں کرتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’یہ ایک عزم ہے کہ ہمیں تیزی کے ساتھ مطابقت رکھنے کی ضرورت ہوگی اور یہ امریکی حکام کی سکیورٹی اور تحفظ کے بارے میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان نے ‘سکیورٹی اور تحفظ‘ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ محض ’الفاظ‘ ہیں اور واشنگٹن کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مزید یقین دہانی کی ضرورت ہوگی۔
15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکی سفارت خانے کے باقی عہدے داروں نے دارالحکومت کے امریکی کنٹرول والے ہوائی اڈے پر پناہ لے رکھی ہے۔
امریکہ طالبان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے کیونکہ وہ 20 سالہ جنگ کے اختتام پر دسیوں ہزار افراد کو افغانستان سے نکالنے کے خطرناک آپریشن کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔