نہ کوئی یونیفارم، نہ کوئی نام پتہ، نہ ایک طرح کا حلیہ اور نہ ایک طرح کا لہجہ۔ یہ تشریح ہے ان طالبان کی جو آج کل کابل کی سڑکوں پر مختلف مقامات پر قائم چوکیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔
چوکیوں کی تعداد کوئی زیادہ نہیں لیکن مختلف علاقوں کے اہم مقامات پر دن رات ان سے سفر کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ شہر کا کنٹرول لینے کے بعد بھی ان میں سے اکثر کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں بے وجہ غصہ نظر آتا ہے۔
اگر غلطی سے کوئی ان کا رکنے کا اشارہ نہ دیکھنے پر آگے بڑھ جائے یا غلط لین پر آجائے تو ڈرائیور کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی جاتی ہے۔ ہر چوکی پر داعش کے خطرے کا احساس دلایا جاتا ہے۔
’ہم یہاں آپ کی سکیورٹی کے لیے تعینات ہیں۔ جیسا ہم چاہتے ہیں اگر آپ ویسا نہیں کریں گے تو مشکل ہو جائے گی۔ داعش والے یہاں متحرک ہیں، احتیاط اور براہ مہربانی تعاون کریں۔‘
طالبان کی پولیس کا طریقہ کار عمومی طور پر انتہائی جارحانہ ہوتا ہے۔ ایک دو مرتبہ آپ سے بات کریں گے اگر پھر بھی نہ مانے تو بندوق سیدھی آپ پر تان لیتے ہیں۔
جب تک طالبان حکام یہ واضح نہیں کرتے کہ آیا نئی پولیس فورس بنائی جائے گی یا یہ طالبان جنگجو ہی پولیس اور فوج دونوں کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے، عام شہریوں سے تلخیاں بڑھیں گی اور مسائل کو جنم دیں گی۔
ماضی سے ایک واضح فرق طالبان چوکیوں پر اب نشان عبرت بنانے والی موسیقی کی آڈیو ٹیپس کا غائب ہونا ہے۔ ان کے فیتے ہوا میں لہراتہ دور سے دکھائی دیا کرتے تھے۔ اب یو ایس بی اور بلوٹوتھ کے دور میں نہ فیتہ ہے تو لٹکائیں تو طالبان کسے لٹکائیں۔
طالبان وزارت اطلاعات کے ایک اہلکار عبدالقہار بلخی نے بتایا کہ طالبان جنگجو کابل کے علاوہ دیگر صوبوں سے بھی منگوائی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے ان کی تعداد کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
طالبان کی شہر میں آمد کی بھی مقامی لوگ دلچسپ کہانیاں سناتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکثر غالباً افغانستان کے دوسرے علاقوں سے یہاں لائے گئے ہیں۔ شاید کابل وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ کابل کے ایک رہائشی نے بتایا کہ کنٹرول حاصل کرنے کے دوسرے روز ادھر ادھر گاڑیوں میں بھاگتے راستے تلاش کرتے ان کی بند گلی میں گھس آئے اور آخر میں واقع ایک مکان کے گیٹ کے بارے میں پوچھنے لگے کہ کیسے کھلے گا، انہوں نے آگے جانا ہے۔ پھر سنا کہ اس دوران جہاں سرکاری گاڑی میں پیٹرول ختم ہوا، اسے وہیں چھوڑ گئے۔
ظائر خان نامی ایک صحافی کے ساتھ گذشتہ روز ایسی ہی ایک چوکی پر لڑائی ہوئی اور صحافی کو زدوکوب کرنے کے علاوہ ان کے موبائل اور آلات بھی چھین لیے گئے۔ کئی دیگر صحافیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور چند ملزمان گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ عام لوگوں کے ساتھ بھی ایسے واقعات کی شکایت سامنے آئی ہیں۔
طالبان کی مسائل کی فہرست میں یہ تو محض ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ انہیں کافی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ افغان ٹی وی چینلز پر تواتر کے ساتھ آکر صحافتی اور اظہار کی آزادی کی اپنی تشریحات بیان کر رہے ہیں۔ ایک ایسے پروگرام میں ایک طالبان رہنما نے عورت اور مرد کے برابر نہ ہونے اور کسی عورت کے اسلامی ریاست کی سربراہ نہ ہونے کا اعلان کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ایسے پرگراموں میں یہ طالبان خواتین کے ساتھ بیٹھ کر بحث مباحثہ کر رہے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سب کو انتظار ہے کہ نئی افغان حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے؟ وسیع البنیاد سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ طالبان تحریک کے اندر ہی یا ان کے حامی سمجھے جانے والے مختلف نسلی اور سیاسی پس منظر رکھنے والوں کو شامل کریں گے یا واقعی تحریک سے باہر سے بھی کسی کو لیں گے؟ قوی امکان یہ ہے کہ وہ اپنے ہی لوگوں کو آگے لا کر اسے وسیع البنیاد کہنے کا دعویٰ کریں گے۔ اگر انہوں نے دوسرے دھڑوں سے کسی کو حکومت میں لینا ہوتا تو حکومت سازی دوحہ میں ہی مکمل ہو جاتی۔
طالبان کو ایک آسانی یہ ہے کہ ملک کے اندر انہیں کسی تگڑی سیاسی حزب اختلاف کا سامنا نہیں ہے۔ شہر میں موجود بڑے بڑے سیاسی رہنما مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گلی میں عام آدمی بھی کھل کر بولنے سے قاصر ہے۔ تاجر رہنما بھی چپ۔ جب کوئی ناقد اور مخالف بولنے کو تیار نہیں تو میرے جیسا صحافی مخالف نکتہ نظر کہاں سے لائے۔
پاکستانیوں کے خلاف غصہ بھی ہے اور گلی میں کسی سے پوچھیں کہ اردو بول سکتے ہیں تو غصے میں جواب آتا ہے ’دا افغانستان است‘۔ طالبان رہنما بھی کہیں پاکستان نواز نہ ٹھہرائے جائیں کے خوف سے یہاں پاکستانیوں سے ملنے سے احتراز کر رہے ہیں۔ ایک سینیئر پاکستانی صحافی نے جب ایک طالبان رہنما کی پریس کانفرنس میں تاخیر سے آنے کے بعد ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر جھڑک دیا کہ ’قریب مت آئیں، پھر یہاں پروپیگنڈا کرتے ہیں لوگ۔‘
ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے اور محض سات آٹھ گھنٹے کی مسافت پر ہونے کی وجہ سے یہ پاکستانی صحافیوں کا حق بنتا ہے کہ وہ سب سے پہلے کسی بڑی خبر یا واقعے کے لیے افغانستان تمام تر قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ کابل رپورٹنگ کے لیے پہنچیں۔
مغرب کی امداد پر قائم ایک حکومت کے گرنے اور پورے ملک پر قبضے جیسی خبر پر پاکستانی نہ آئیں، یہ درست نہیں۔ ان پر اعتراض کہ وہ وزیرستان کیوں نہیں جاتے تو ان سے درخواست ہے کہ آج کل کے جدید دور میں تھوڑا گوگل ہی کر لیں تو انہیں ان صحافیوں کی وزیرستان سے رپورٹنگ بھی مل جائے گی۔