حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے کراچی میں اتوار کو منعقدہ جلسے میں جمعیت علما اسلام کے کارکنوں کی اکثریت نظر آئی۔
ماضی کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر اتوار کو منعقد کیے جانے والے جلسے میں پاکستان مسلم لیگ (نواز)،اختر مینگل کی بلوچستان نيشنل پارٹی(مینگل)، جمعیت علما پاکستان اور پروفیسر ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے کارکنان اپنی جماعتوں کے جھنڈے اٹھائے نظر آئے مگر اکثریت جمعیت علما اسلام کے کارکنوں کی نظر آئی۔
جلسے کی کوریج کرنے والے مقامی میڈیا کے ایک صحافی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علما اسلام کارکنوں کی اکثریت کے باعث یہ جلسہ سیاسی کم اور مذہبی اجتماع زیادہ لگ رہا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں کراچی شہر کے اسی مقام جناح باغ میں ہونے والے جلسے میں شرکا کے بیٹھنے انتظامات سے لے کر کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کے انتظامات بھی بہتر تھے، جو اتوار کو ہونے والے جلسے میں نظر نہیں آئے۔جلسے سے ایک دن پہلے ہفتے کو جمعیت علما اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری اور مرکزی ناظمِ انتخابات مولانا راشد سومرو نے پی ڈی ایم کے جلسے میں خواتین کو یہ کہہ کر شرکت کرنے سے روک دیا تھا کہ ’جلسہ تاریخی ثابت ہوگا، اس لیے خواتین کو زحمت نہیں دے سکتے، جلسے میں مدارس کے طالب علم بھی دھڑلے سے شریک ہوں گے۔ ہم خواتین کےخلاف نہیں بلکہ ان کا احترام کرتے ہیں، اس لیے جلسے میں شرکت سے روک رہے ہیں۔‘
اس کے باوجود جلسے میں سفید کپڑے سے ڈھانپی ڈیڑھ سو کرسیاں خواتین کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ جب کہ منع کرنے کے باوجود جلسے میں شرکت کرنے کچھ خواتین پہنچی ہوئی تھیں۔
جمعیت علما اسلام کارکنان کی ایک بڑی تعداد کراچی سے پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شمالی سندھ کے مختلف اضلاع سے پہنچی ہوئی تھی۔
سکھر ضلع کے پنوں عاقل سے کراچی جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے عبدالرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صرف پنوں عاقل شہر سے جمعیت علما اسلام کے کارکنوں کی پانچ بسیں آئی ہیں۔
شکارپور سے آنے والے عمر رسیدہ عبداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بیمار ہیں مگر اس کے باجود مولانا (فضل الرحمٰن) کے بلانے پر جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے۔
پاکستان کے سیاسی امور کے ماہر صحافی ضٰیا الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے کراچی جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوجانے کے باوجود جمعیت علما اسلام (ف) کراچی شہر میں پی ڈی ایم کا ایک متاثر کن جلسہ منعقد کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ضٰیا الرحمٰن نے بتایا ’جمعیت علما اسلام (ف) کا کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کوکامیاب کرانے میں کلیدی کردار رہا ہے، جمعیت علما اسلام (ف) پھر سے پارٹی کارکنوں کوجلسہ گاہ میں لانے میں کامیاب رہی۔‘
کراچی میں گزشتہ سال اور حالیہ سال کے شروعات میں پی ڈی ایم کے جلوس سے موازنہ کرتے ہوئے ضٰیا الرحمٰن نے کہا کہ اسی مقام پر پہلے ہونے والے ان دونوں جلسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ تھی اور اس وقت جلسے کی میزبانی سندھ کی حکمران جماعت پی پی پی کے پاس تھی جوصوبے کی سرکاری مشینری کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے بھر سے ایم این اے اورایم اپی ایز کے ذریعے جلسے کو کامیاب کرانے میں کامیاب رہی۔ ’مگر اس بار سرکاری مشینری نہ ہونے کے باجود جمعیت علما اسلام (ف) کی جانب سے کلیدی کردار ادا کرنے اور کارکنان کو دور دراز سے جلسے میں لانے کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ جلسہ متاثر کن تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جلسے میں شرکت کے لیے صدر ن لیگ شہباز شریف بھی پہنچے، جب کہ پی ڈی ایم کے گزشتہ سال اسی مقام پر ہونے والے جلسے میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے مریم نواز نے شرکت کی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر 2020 میں حزب اختلاف کی جمعیت علما اسلام (فضل)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز)، محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، اختر مینگل کی بلوچستان نيشنل پارٹی(مینگل)، عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی (بزنجو)، جمعیت علما پاکستان، پروفیسر ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلحدیث، آفتاب احمد شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی، عوامی نيشنل پارٹی سمیت گیارہ سیاسی جماعتوں نے پی ڈی ایم بنانے کا اعلان کیا تھا۔
بعد میں سینیٹ الیکشن پر اختلافات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے اتحاد سے علیحدگی کرلی۔ اب اس اتحاد میں نو پارٹیاں شامل ہیں۔
حکومت مخالف یہ اتحاد اپنے قیام سے اب تک ملک کے مختلف شہروں میں 16 جلسے کرچکا ہے۔ جب کہ اتوار کو کراچی میں ہونے والا جلسہ اتحاد کا اٹھارواں جلسہ تھا۔ اس سے پہلے گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور، ملتان، لاہور، لاڑکانہ، بہاول پور، بنوں، بری والا، لورالائی، اسلام آباد، مظفرآباد، حیدرآباد، سیال کوٹ، اور سوات میں اتحاد کے جلسے ہوچکے ہیں۔