جمعہ کو 10 ڈاوننگ سٹریٹ پر خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حکمران کنزرویٹیو پارٹی کی ہزیمت اور بریگزٹ پلان کے خلاف اپنی ہی کابینہ کی جانب سے بڑھتی ہوئی بغاوت کے بعد برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے کے مستعفیٰ ہونے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔
مے کے نئے بریگزٹ معاہدے کو کابینہ کے ارکان نے مسترد کر دیا تھا اور اس صورتحال کے بعد برطانوی وزیراعظم کے پاس بظاہر استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا اس حوالے سے جمعے کو اپنے مختصر خطاب میں مے کا کہنا تھا کہ وہ سات جون تک کنزرویٹیو پارٹی سربراہی چھوڑ دیں گی۔
مے نے یہ ڈرامائی اعلان ٹوریز بیک بینچ کی 1922 کمیٹی کے چیرمین سر گراہم بریڈی سے ملاقات کے بعد کیا جنہوں نے ان سے 10 ڈاوننگ سٹریٹ میں طویل مشاورت کی۔
ٹریزا مے کی پارٹی کے بہت سے سابق رہنماوں نے بھی بطور تبصرہ نگار انہیں خبردار کیا تھا کہ اگر مے کی بریگزٹ ڈیل ووٹنگ میں ناکام ہو گئی تو انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ سکتا ہے۔
مثال کے طور پر سابق راہنما این سمتھ کا کہنا تھا کہ مے اور ان کی کابینہ کا اس ڈیل پر جمے رہنا صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ووٹنگ کے بعد ٹریزا مے کا سخت رویہ قیادت کا بحران پیدا کر سکتا ہے۔ برطانوی پارلیمینٹ کے کئی دوسرے اراکین بھی مختلف انٹرویوز میں اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے کہ ٹریزا مے کو استعفی دینا پڑ سکتا ہے۔
بریگزٹ ہی کی وجہ سے چار حکومتی اراکین اسمبلی پہلے بھی اپنا استعفیٰ پیش کر چکے ہیں۔ برطانوی حکومت کے بریگزٹ سیکریٹری ڈومینک راب اور ان کے ہمراہ ورک اور پنشن کی وزیر ایستھر میکووے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکی ہیں۔
ان کے علاوہ جونیئر ناردرن آئرلینڈ منسٹر شائلیش وارا ، جونئیر بریگزٹ مسٹر سویلا بریورمین اور پارلیمنٹ کی پرائیویٹ سیکریٹری این میری ٹریولیان نے بھی ٹریزا مے سے پہلے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔
سابق بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب نے تو اس معاہدے کو اپنے ضمیر پہ بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج میں بطور بریگزٹ سیکریٹری مستعفی ہو گیا ہوں۔ میں یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی حمایت نہیں کر سکتا، یہ میرے ضمیر پر بوجھ ہو گا۔‘
ٹریزا مے سات جون تک برطانوی وزیراعظم کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں گی جس دوران وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات میں برطانیہ کی نمائندگی کریں گی۔
امریکی صدر تین جون کو سرکاری دورے پر لندن پہنچ رہے ہیں۔
مے کے استعفیٰ کو یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کی ممکنہ شکست اور بریگزٹ کے نئے معاہدے پر اپنی ہی کابینہ کے ردعمل کا یتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
نئے بریگزٹ معاہدے پر اختلاف کی وجہ سے برطانوی پارلیمان کی ایوان زیریں دارالعوام میں کنزرویٹیو پارٹی کی رہنما وزیر آنڈریا لیڈسم نے بدھ کو استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد امکان ہے کہ کابینہ کے دیگر ارکان ان کی پیروی کریں گے۔
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں دونوں بڑی جماعتوں ٹوریز اور لیبر پارٹی کو شکست کا سامنا ہے جبکہ لبرل ڈیموکریٹکس اور بریگزٹ پارٹی اس صورتحال میں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
اس دوران برطانوی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بریگزٹ کے نئے معاہدے کو جون سے پہلے بحث کے لیے پیش نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ کا کہنا جمعرات کو کہا تھا کہ امریکی صدر کے دورہِ برطانیہ کے دوران ٹریزا مے ہی بطور وزیراعظم ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کریں گی۔
سائبرسیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہنٹ کا کہنا تھا ٹریزا مے بطور برطانوی وزیراعظم تین جون کو صدر ٹرمپ کا خیرمقدم کریں گی۔
23 مئی سے 26 مئی تک جاری رہنے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات کے موقعے پر تشدد کے خطرے کے بعد برطانیہ بھر میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے، برطانیہ میں شہری بڑی تعداد میں ان انتخابات کے لیے ووٹنگ میں کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔
سکاٹ لینڈ پولیس کے مطابق یہ اضافی حفاظتی اقدامات انتخابی مہم کے دوران انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں اور نسل پرستی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔