برداشت، تحمل، احترام، لحاظ ان الفاظ کا ذکر نصابی کتب اور علمی مباحثوں تک محدود ہو گیا ہے۔
ماضی میں مختلف المذاہب اور مختلف العقائد لوگ اسی دھرتی پر ہم آہنگی سے زندگی گزارتے رہے ہیں۔مذہبی ہم آہنگی اور پُر امن معاشرے کی اساس ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات کے احترام میں ہے۔
ایسا کیا بدل گیا ہے کہ لوگ اختلافِ راۓ پر کسی کی جان لینے تک چلے جاتے ہیں۔ الفاظ کے پتھر حقیقی پتھروں میں بدل گئے۔
معاشرہ مجموعی طور پر متشدد اور انتہاپسند ہونے لگا۔ جہاں تعلیمی نظام کی بوسیدگی، سماجی انصاف کی کمی، نظام عدل کی ناکامی اور طبقاتی تقسیم اس عدم برداشت کی وجوہات میں شمار کیے جاتے ہیں وہیں بعض لوگ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے لئے میڈیا کو بھی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
میڈیا جو پاکستان کا چوتھا ستون ہے، اس کی اہمیت پاکستان کے سیاسی حالات میں معلومات اور ذہن سازی تک محدود نہیں رہی۔
آمرانہ ادوار کے نتیجے میں اداروں کے مابین اثر و رسوخ پر جو کھینچا تانی جاری ہے اس کی وجہ سے میڈیا نے حکومتیں گرانے اور بنانے میں اپنا کردار تلاش کرنا شروع کر دیا۔
دہشت گردی جیسے پیچیدہ مسائل اور معروضی حالات میں میڈیا اور معاشرے کے تعلق کی نوعیت بہت واضح نہیں ہے۔
عمومی طور پر یہ یقین کیا جاتا ہے کہ میڈیا پر جو دکھایا جا رہا ہے وہ معاشرے کا آئینہ ہے مگر ہمارے ہاں میڈیا پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جو رویے میڈیا پر اجاگر کیے جا رہے ہیں وہ نتیجتا معاشرے میں پنپ رہے ہیں؟
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا ارتقا زیادہ پرانی بات نہیں۔ مجھے وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب میڈیا پر دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کو زیادہ ریٹنگ والے پروگرام قرار دے دیا گیا۔
ٹاک شوز بڑی اہمیت کے حامل ہو گئے ۔ اس وقت چینلز کم تھے تو بہت سے ایسے اینکرز کو راتوں رات شہرت کا راستہ مل گیا جو زیادہ بد تمیزی اور بد لحاظ ہو کر سیاست دانوں سے سوال کرتے تھے۔
سوال کے مواد پر سے توجہ ہٹ گئی اور جارحانہ انداز لوگوں کی پہچان بننے لگا۔ ہماری صحافتی برادری میں اس نوعیت کی صحافت کو بد تہذیبی نہیں بلکہ نڈر صحافت کہا گیا۔
اگرچہ چند ناقد آوازیں صحافت کے بگڑتے ناک نقشے پر اٹھیں مگر واہ واہ کا شور اتنا زیادہ تھا کہ وہ آوازیں اپنا اثر کھو بیٹھیں۔
اینکرز کی کامیابی کا معیار یہ طے ہوا کہ جو زیادہ لڑائی کرائےگا وہ ذیادہ بڑا اینکر بنے گا۔ چند نامور صحافی ہی اقدار کے اس انحطاط سے خود کو ابھی تک محفوظ رکھ پائے ہیں ۔
مگر بحیثیت مجموعی ریٹنگ کی اس دوڑ میں کسی کو یہ کھوج لگانے کا وقت نہیں ملا کہ معلوم کر سکے کیسے اور کہاں صحافت کے اصولوں میں “جو بِکتا ہے وہ دِکھتا ہے“ جیسے سنہری اصول شامل ہو گئے۔
اس اصول کی سب سے بڑی مثال کرائم شوز ہیں جو ہر چینل کے بقول سپانسر کے پسندیدہ پروگرام ہیں۔
عدلیہ بھی ان پروگروموں کو بند کرانے میں ناکام رہی۔”جو بکتا ہے“ کی دکان سوشل میڈیا کے آنے سے مزید چمک گئی۔
جو ذرا سا دم صحافتی اقدار میں بچا تھا وہ سوشل میڈیا کے ہلے گلے کی نذر ہو گیا۔ مواد کے تنوع اور انحطاط کے شکار میڈیا نے سوشل میڈیا کی ہیجان خیز ی سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا۔
اس کی ایک مثال معصوم شکل والا وہ بچہ ہے جس کی کلاس روم میں جارحانہ باتوں کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ ملی اور پھر ملین ویوز لینے کے لئے بڑے نیوز چینل کی خبروں اور مارننگ شوز نے اس بچے کو سٹار بنا دیا۔
بچہ تو معصوم ہے اس کو کیسے اس بات کا الزام دیا جا سکتا ہے، مگر جو پیغام اس سارے قصے سے دیکھنے والوں کو ملا وہ یہی تھا کہ کسی اور خوبی یا فن کی وجہ سے آپ کے بچے کو اپنا آپ منوانے کے مواقع ملیں یا نہ ملیں مگر اس کا جارحانہ انداز اسے میڈیا کی جانی پہچانی شخصیت بنا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کو قابو کرنا ناممکنات کا قصہ ہے مگر ٹی وی چینلز جہاں بیشتر پیشہ ور صحافی کام کرتے ہیں وہاں اس طرح کی عدم احتیاط کا الزام کس کو دیا جائے۔
ٹی وی پروگراموں میں روز الزام تراشی کا ایک سلسلہ بغیر کسی ثبوت کے چلتا ہے جہاں لوگوں کے ایمان سے لے کر ان کی حب الوطنی پر شکوک کا اظہار برملا کیا جاتا ہے۔
اس کے ردعمل میں چند مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں اس الزام تراشی کے متاثرین نے مختلف پروگراموں اور چینلوں کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی کرنےکی کوشش کی مگر جتنا کمزور ہمارا انصاف کا نظام ہے اس کو دیکھتے ہوۓ چینلوں نے اپنی روش نہیں بدلی۔
کئی صحافیوں کی خبریں جھوٹی اور ذہنی اختراع ثابت ہوئیں مگر ان کے خلاف صحافتی برادری نے کم ہی لب کشائی کی۔
اس غیر معمولی روش کو دیکھتے ہوئے ایسے واقعات بھی ہوئے جہاں مختلف صحافیوں کی خبروں کو ملک کے خلاف سازش قرار دے دیا گیا۔
بدقسمتی سے صحافتی اقدار کے جنازے کو کندھا دینے والے اس لڑائی میں بھی خاموشی سے پسپا ہو گئے۔
مصلحت اندازی کا شکار میڈیا اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے کوئی اجتماعی مہم نہ چلا سکا۔ ہمیں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے خلاف قومی محاذ بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ محاذ بغیر میڈیا کی شراکت کے ممکن نہیں، جس طرح سے مختلف چینلوں پر بیٹھے ہوئے صحافی کم اینکرز ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں، کیا ایسے چینلوں اور صحافیوں کی ساکھ عوام کے سامنے قائم ہے؟
کیا معاشرہ اپنے سدھار کے لیے اس میڈیا کی طرف رجوع کرے گا؟ ریٹنگ کا بہاؤ کبھی کم بھی ہو جائے گا مگر عدم برداشت کا جو کلچر اس معاشرے کو جکڑ چکا ہے اس کے شکنجے سے آزادی ایسے ہی مشکل رہے گی۔ جب تک ’میڈیا گُرو‘ ’جو بِکتا ہے وہ دِکھتا ہے‘ میں منطق، دلیل، حقائق اور ثبوت جیسے عناصر شامل نہیں کریں گے تب تک الزام تراشی، عزت اچھالنے، اور احترام نہ کرنے کے رحجان میں کمی مشکل ہے۔
موجودہ سیاسی کلچر میں الزام تراشی کے سلسلے میں سوشل میڈیا کی شراکت کے بعد زوال کا سفر مزید تیزی سے جاری ہے۔