دو روپے بھی نہیں لگتے اور اگلے بندے کے دل میں بے شمار لڈو پھوٹ پڑتے ہیں۔
تعریف۔ اس میں ڈھونڈئیے، مسکراہٹ نظر آتی ہے آپ کو؟ مطلب یہ لفظ ایسا ہے کہ جب آپ کے ہونٹوں سے اس کا آخری فے نکل رہا ہوتا ہے اس وقت چہرہ مسکراتا ہوا نہیں لگتا؟
چند لفظ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ ایک تصویر دماغ میں بنتی ہے۔ مسکراہٹ ہی کو دیکھ لیں، کہیں پڑھیں گے تو مسکراتا چہرہ دماغ میں آئے گا، اسی طرح خوشامد ہے، چاپلوسی ہے، دو نمبری کا تصور یہ دونوں لفظ پڑھتے ہی دماغ میں بن گیا بلکہ شاید کوئی چہرہ بھی آ گیا ہو۔
لفظوں کی ایک اپنی فیلنگ ہوتی ہے جیسے گاجر لفظ کبھی جامنی رنگ کے ساتھ دماغ میں نہیں آتا حالانکہ گاجریں بہرحال جامنی بلکہ پنک بھی ہوتی ہے۔ گاجر ہے تو لال ہی ہو گی، کہ نئیں؟
تو یہ جو تعریف ہے اور جس لفظ کی ایسی خوبیاں ہیں، یہ اصل میں بھی بڑی ظالم چیز ہے لیکن ہم لوگ باقاعدہ کنجوس ہوتے ہیں اس کے معاملے میں۔
پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کی طبیعت ہے کون سی؟ کسی دوسرے کو خوش دیکھ کر آپ کو اچھا لگتا ہے یا آپ پریشانی میں پڑ جاتے ہیں کہ ’اے کی ہو گیا جے؟‘
اگر تو آپ وہ ہیں کہ جو دوسروں کو خوش دیکھ کر خود ڈیڑھ گنا خوشی محسوس کرتے ہیں تو یرا جی، تعریف کا استعمال کیا کریں۔ آپ کسی معمولی سی بات کی تعریف کریں گے اور سامنے والا نہال ہو جائے گا، وہ جو خوشی ہو گی اس کے چہرے پہ، اسے دیکھ کے آپ خوش ہوں گے اور جب آپ دونوں خوش ہوں گے تو مسکراہٹوں کا یہ سفر تھوڑا آگے، آس پاس بھی منتقل ہو جائے گا۔
ایک بچے کو دیکھیں، وہ چار سال کا ہے، اس نے کوئی ڈرائنگ بنائی آپ نے واہ واہ کر دیا، دو پیار کیے، ایک ٹافی دے دی، کیا گیا آپ کا؟ بچہ نہ صرف خوش ہوا بلکہ دس سال کی عمر تک بہترین پینٹنگ بھی کرنے لگ گیا۔
تعریف تو بھئی ایسی چیز ہے جو میرا بس چلے تو مفت سڑک پہ بانٹی جائے۔ دل میں کیوں رکھتے ہیں؟ کسی کی گاڑی اچھی لگی، کسی کا سوٹ اچھا ہے، کسی کے بال اچھے ہیں، کسی کی لکھائی پسند آ گئی، کوئی کھانا پسند آیا، کسی ماتحت کی بات اچھی لگی، کچھ بھی تعریف کے لائق دکھے تو اسی وقت کریں، منہ پہ کریں۔ آپ کا کچھ بھی نہیں جائے گا اگلے بندے کی زندگی بن جائے گی۔
ایک لڑکا تھا، اس نے پہلی تحریر لکھی، مشہور نامی گرامی ادیبوں کو دکھائی، بس رائے مانگی، انہوں نے بڑھ کے حوصلہ دیا، کہا تم لکھ سکتے ہو، ضرور لکھو، تو وہ ایسا چالو ہوا کہ ہفتے میں چار چار بلاگ بھی کھڑکا دیتا تھا۔ لڑکا آپ کا بھائی تھا، کہنے والے عقیل عباس جعفری تھے، وجاہت مسعود تھے، آصف فرخی تھے اور خاکہ ابا کا تھا۔
یہ بات پہلے بھی کر چکا ہوں۔ یہاں بتانے کا مقصد اتنا سا ہے کہ فرض کریں اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک بندہ بھی خرابی نکال دیتا، کوئی ٹیکنیکل نکتہ کھول دیتا کہ ایسے نہیں ایسے کرو، تو اپنا بینڈ بج جاتا کہ نہیں؟ پہلی ہی تحریر پہ تنقید ہو جاتی تو بابا کون لکھتا پھر؟
تنقید ویسے بھی ایسا بھیانک لفظ ہے جیسے کوئی پرانے زمانے کی فلموں کا ولن ہو جس نے منہ پر موٹا سا مسّا چپکایا ہوا ہے، بڑی بڑی مونچھیں ہیں اور وہ لفظوں سے آپ کی پھینٹی لگا رہا ہے۔
کسے پسند ہے تنقید؟ آپ کے بنائے کھانے پر ہو، کپڑوں پہ ہو، ڈرائیونگ پر ہو، چہرے پہ ہو، ہئیر سٹائل پہ ہو کسی بھی چیز پر ہو کون پسند کرتا ہے؟ یہاں تک کے اردو ادب میں بھی تنقید جس پر ہوتی ہے وہی جانتا ہے کہ ٹانگ کہاں کہاں توڑی گئی، باقی دنیا چیزے لیتی ہے۔
تو جس کا حق ہے، اسے پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کریں، کوئی معمولی خرابی دیکھیں تو کیڑے مت نکالیں بلکہ اپنے اندر کے کیڑے باہر مت نکالیں۔ روک لیں خود کو، تھوڑی سی کوشش کریں اور درگزر فرما کے آگے نکل جائیں۔ اگلے کو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے، وہ چلتا رہا تو خود ہی سیٹ ہو جائے گا، قسم سے!
روکیں وہاں جدھر آپ سے پوچھا جائے، سامنے والا باقاعدہ کہے کہ حضور میری اصلاح کریں ورنہ میں تباہ ہو جاؤں گا، یا پھر یہ کہ وہ بے چارہ آپ کی اولاد ہو، بہن بھائی ہو، شاگرد ہو مطلب کسی بھی طرح ڈائریکٹ متاثرین میں سے ہو، ادروائز ۔۔۔ تنقید کوئی مانگتا ہے اور نہ اس کا اثر خاص ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تعریف دوسری جانب بڑے سے بڑا معرکہ جتوا دیتی ہے۔ آپ نے کبھی جِم میں باڈی بلڈنگ کرنے والوں کو دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا؟ اچھا سنیے۔ ورزش کرنے والا بینچ پہ لیٹا، چیسٹ کی ایکسرسائز کرنی ہے، وزن دونوں سائیڈوں پہ لگایا کوئی ستر اسی کلو کا اور راڈ اٹھا لیا۔ اب اس نے اس وزن کے ساتھ کم از کم دس بار اس راڈ کو سینے تک لانا ہے، پھر دوبارہ اوپر اٹھانا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ چھٹی ساتویں بار میں ورزش کرنے والے کی بس ہو جاتی ہے۔ وہ زور سے چیختا ہے ’ہیلپ‘ انسٹرکٹر آتا ہے، دو انگلیاں راڈ کو لگاتا ہے اور بولتا ہے ’یس، شاباش، اٹھاؤ وزن، یہ چیز، ہو گیا آٹھواں، دو رہ گئے، یہ نواں ہو گیا، شابا، شابا، شابا، آخری بس۔‘ یوں وہ دس بار کا وظیفہ پورا ہوتا ہے اور راڈ کو دوبارہ سٹینڈ پہ ٹانگ دیا جاتا ہے۔
یہ آخری تین یا چار جو ’رپ‘ ہوتے ہیں، یعنی راڈ کو جو اوپر نیچے کیا جاتا ہے اس میں باڈی بلڈر کی پوری جان لگ جاتی ہے اور سیانوں کے مطابق یہی وہ وقت ہوتا ہے جب مسل پہ فل زور پڑتا ہے اور وہ ابھرنے کی طرف نکلتا ہے۔
اندر کی بات ہے، باڈی بلڈر کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ جو دو انگلیاں انسٹرکٹر صاحب نے رکھی ہوئی ہیں ’ہیلپ‘ کے نام پر، اس سے چھنکنے برابر فرق بھی نہیں پڑ رہا، ساری طاقت وزن اٹھانے میں میری لگ رہی ہے لیکن وہ ہیلپ مانگتا ضرور ہے اور انسٹرکٹر بھی آ کے ’شابا شابا شابا‘ چیختا ضرور ہے۔ وہ دونوں کھیل رہے ہوتے ہیں اور وزن یہ ’شابا‘ اٹھوا جاتی ہے۔
تعریف سائیں لوگو دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے بلکہ دنیا سے باہر بھی تعریف ہی ہے جس پہ سب کچھ قائم ہے۔
سوشل میڈٰیا کے ’استادوں‘ کے لیے ایک ٹِپ یہ ہے کہ سر/ میڈم، جدھر خرابی دیکھیں تڑپ کے کمنٹ مت کریں، جو بھی ہے اس غریب کے ان باکس میں جا کے طریقے سے بتا دیں، بحث کرے تو بھی شکریہ کہہ کر سائیڈ پہ ہو جائیں۔ مقصد اپنی رائے دینا ہے یا اسے ثابت کرنا؟
باقی ’استادوں‘ کے لیے ایک مشورہ یہ کہ بھیا تعریف، ٹھرک اور فلرٹ میں بال برابر کا فرق ہوتا ہے لہذاٰ اس کالم کو اندھا دھند ’پریکٹیکل لائف‘ میں ’اپلائے‘ کرنے سے پہلے تھوڑا بہتا حساب کتاب لگا لیں، اخے ’فیر کیندے بوٹا ۔۔۔‘ آہو۔