سکون حاصل کرنے پر جتنے لیکچر ان بابوں نے دیے جن کی ہڈیوں میں آرام رچا ہوا تھا، شاید ہی کسی نے دیے ہوں۔
یہ سوال ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کا جواب ڈھونڈتا رہتا ہے۔ جواب کسی نہ کسی کو بہرحال دینا ہوتا ہے، تو یہ ڈپارٹمنٹ ہم نے سیدھا سیدھا خود پیر فقیروں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ کبھی ہم نے کسی سنار سے کیوں نہیں پوچھا کہ چاچا، سکون کیسے ملتا ہے؟ کسی شوگر مل کے مالک سے پوچھا ہو؟ کسی کامیاب سیاست دان سے پوچھا ہو؟ کوئی سافٹ وئیر انجینئیر جواب دیتا ہو؟ کوئی پاپ سنگر، کوئی درزی، کوئی ویٹر، ٹیکسی والا۔۔۔ سکون تو سب چاہتے ہیں، تلاش کے لیے ہم نے صرف بابوں پہ اکتفا کیوں کر لیا؟
میں خود ایک لٹ آدمی ہوں، شدید آرام طلب بلکہ کلاسیکل سکون پسند، تو میرا کیس سمجھ میں آتا ہے کہ سکون حاصل کرنے کے چکر میں کسی بابے کے گوڈے پکڑ لوں، لیکن جو انسان کامی طبیعت کا ہے، جسے بیٹھنا پسند نہیں، جو ہر وقت لیٹنے کے بہانے نہیں ڈھونڈتا، جو بھاگنا چاہتا ہے، زندگی سے کچھ جوس نچوڑنا چاہتا ہے، اسے کیسے کہہ دوں کہ تیرے سکون کا بھی راستہ وہی ہے جو میرا ہے؟
پچھلے دنوں لاہور کا سب سے بڑا موبائل فونوں والا پلازہ مکمل جل گیا۔ خدا جانے کب وہ دوبارہ آباد ہو گا۔ وہاں روز صبح دکان دار سات بجے اپنی اپنی گاڑیوں میں پہنچ جاتے ہیں، سب سامان اندر رکھا ہوتا ہے، باہر پارکنگ میں ڈگی کھولی، دکان لگا کے کھڑے ہو گئے۔ ان سے ذرا جا کے پوچھیں سکون کس چیز میں تھا؟ سوچیں کہ وہ بے چارے چنگے بھلے دس گیارہ بجے اٹھتے ہوں گے، ناشتے کھڑکا کے ڈیڑھ دو بجے کام پہ اپنی سجی بنی دکانوں میں آتے ہوں گے اور اب صبح تڑکے موت پڑی ہوتی ہے کہ پارکنگ تک لیٹ پہنچے تو پتہ نہیں گاڑی کھڑی کرنے کو جگہ ملے گی بھی یا نہیں؟ شاید پہلے وہ آلریڈی سکون میں ہوں اور انہیں پتہ نہ ہو کہ سکون وہی ہے جس میں وہ موجود ہیں اور وہ اسے ڈھونڈتے پھرتے ہوں، یا شاید اب جس وقت وہ غریب پارکنگ میں پہنچ کے جگہ مل لیتے ہوں گے تب انہیں لگتا ہو گا کہ استاد، یہ کائنات کا سب سے بڑا سکون ہے؟
آدھی سے زیادہ زندگی آپ کے بھائی نے سیلز اور مارکیٹنگ میں گزاری ہے۔ ندیم بھائی میرے کولیگ ہوتے تھے، بہت شدید کام پسند آدمی، خدا زندگی صحت دے، ان کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی بڑا آرڈر ملتا نظر آ رہا ہوتا تو ان کی آنکھوں میں باقاعدہ ایک چمک دکھائی دیتی تھی۔ زندگی میں ہمیشہ یہ بات محاورے کی حد تک سنی تھی کہ خوشی میں یا کامیابی پہ کسی کی آنکھیں چمکنے لگ جائیں لیکن ان کی آنکھیں باقاعدہ چمکتی ہوئی خود میں نے دیکھی ہیں۔
ان کا بات کرنے کا طریقہ بدل جاتا تھا، دور سے دیکھنے والا بھی بتا سکتا تھا کہ یہ بندہ ایک ٹرانس میں ہے، اسے منزل سامنے نظر آ رہی ہے، یہ کسی بھی طرح اب اس تک پہنچ کے رہے گا، تو اس لمحے اگر میں پوچھتا کہ ندیم بھائی سکون کیا ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہونا تھا کہ بھائی یہ جو سامنے پرچیز آرڈر نکلنے والا ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا سکون ہے۔
جو چیز چھو کر نہیں دیکھی جا سکتی اس کی ایک تشریح پر اتفاق ممکن نہیں ہے۔ خوشبو اس کائنات کی حسین ترین حقیقت ہے لیکن گلاب کو جب سونگھتے ہیں تو کیا اسے لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ الائچی کی خوشبو کیسی ہوتی ہے؟ چلغوزے کا ذائقہ لفظوں میں ڈیفائن ہو سکتا ہے؟ آم کو میٹھا یا کھٹا کہنا ممکن ہے لیکن اگر میٹھا تھا تو کتنا تھا اور خوشبو تھی تو کیسی تھی، اسے کسی دوسرے کو بتاتے ہوئی کیسے سمجھائیں گے؟ کسی مکان کے تہہ خانے میں سیم یا نمی کی ہلکی سے مہک آپ کو ایک دم اپنے پرانے محلے کی گلیاں کیوں گھما دیتی ہے؟
یہ تجربہ ہر بندے کا ذاتی ہے۔ مزید سمجھیں، آپ پلاؤ کی 35 دیگیں ایک جیسے مصالحے کے ساتھ بنائیں اور لوگوں کو کھلا دیں۔ کسی کو وہ بہت اچھا لگے گا، کسی کو صرف اچھا اور کوئی اس میں نقص نکالتا پایا جائے گا۔ کیوں؟ دیکھیے، جو چیز چھو کر نہیں دیکھی جا سکتی اس کی ایک تشریح پر اتفاق ممکن ہی نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو بس یہی معاملہ سکون کا ہے۔ مجھے گرمیوں میں بھی دھوپ سینکنا بعض اوقات اچھا لگتا ہے، آپ میرے ساتھ اے سی والے کمرے سے ایک دم باہر نکل کے کھڑے تو ہو سکتے ہیں، لیکن مجھ جتنا سکون آپ کو ملے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ساری گڑبڑ ہے۔ سکون کا ایک فکس ڈیزائن نہیں ہے۔ ہم لوگ زبردستی اپنے بچوں کو، دوستوں کو، آس پاس والوں کو صرف اپنی لاٹھی سے ہانکنے کے چکر میں لگے ہوتے ہیں۔
ہم کسی امیر رشتے دار کو دیکھتے ہیں تو وہ 24 گھنٹے مصروف نظر آتا ہے۔ دل میں سوچتے ہیں کہ یار کیسی کتوں والی زندگی ہے، کوئی آرام ہی نہیں، کوئی سکون نہیں، 24 گھنٹے بھاگ رہا ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے بابا کہ اس کا سکون اسی بھاگنے میں ہے؟ ہم بات بات پہ ناچنے گانے والی نئی نسل کو برا بھلا کہتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ان کی بوٹی میں سکون ہے ہی نہیں، یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کا سکون یہی ہے؟
کبھی ٹھیک سُر لگانے کے بعد گانے والے کا چہرہ دیکھا ہے؟ وہ بھی ایک سکون ہے۔ دن میں 18 گھنٹے خجل ہونے کے بعد چھ مہینے میں پورا مکان جب بن جاتا ہے اور اس کے سامنے کھڑا ٹھیکے دار دھوپ سے بچنے کے لیے ہاتھ کا چھجا آنکھوں پہ رکھے ہر زاویے سے اسے مکمل ہوا دیکھ رہا ہوتا ہے، تو وہ جو اس کے چہرے پہ تاثر ہوتا ہے، کیا وہ سکون نہیں ہے؟
سکون کو باہر تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے خود اپنی طبیعت جان لی جائے۔ پیٹ میں روٹی جاتی ہے، جسم ٹھیک چلتا ہے، پیارے سب ساتھ میں ہیں تو یہ خود ایک بہت بڑا سکون ہے۔ ابھی 24 گھنٹے بھی اس سکون کے لیے بھاگنا پڑتا ہے تو بھاگیں کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی کم ہوئی تو سکون کا لیول وہ نہیں رہے گا۔ لیکن پھر وہی بات کہ یہ سکون کی صرف ایک ڈیفینیشن ہے، اسے ہر بندے پہ نہیں ٹھونک سکتے۔
پودینے کی خوشبو، سریلا بنا ہوا اچار، الارم پہ کامیابی سے اٹھنا، سندر خانی انگور کا ذائقہ، نئی گاڑی کے انٹیرئیر کی مہک، بچے کی ہنسی، پرانے دربار پہ اڑتے کبوتر، وقت پہ دھلے برتن، کوئی اچھی تحریر، محبوبہ کا لمس، شوخ رنگوں کی تصویر، آرام دہ فٹنگ کی جینز، مہربان باس، مفت یوٹیوب، بلب کی پیلی روشنی ۔۔۔ ڈھونڈیں شاید ان میں ہی سکون کہیں چھپا پڑا ہو۔