حجاب اور برکینی کے ساتھ ماڈلنگ کرنے والی پہلی امریکی سپر ماڈل حلیمہ عدن فیشن انڈسٹری میں اپنے پرکشش معاہدے ختم کر کے فیشن ڈیزائننگ کی اس دنیا میں قدم رکھ چکی ہیں جہاں حجاب پر پابندی نہیں ہے۔ روائتی ماڈلنگ کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ ’اس میں بنیادی انسانی احترام‘ کی کمی ہے۔
صومالی نژاد امریکی حلیمہ عدن، جو کینیا میں مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئیں، انہیں فیشن کے تیز اور کھلا پن رکھنے والے شعبے میں اپنی ذات کی قدر اور فلاح کو تحفظ فراہم کرنے کا مسئلہ درپیش تھا کیونکہ فیشن کی دنیا کا ان کی مسلم اقدار کے ساتھ تصادم بڑھتا جا رہا تھا۔
استبول میں اے ایف پی کو انٹرویو میں حلیمہ کا کہنا تھا کہ بچپن سے یہ قول کہ ’خود کو نہ بدلیں، بازی پلٹ دیں‘ میری زندگی میں مجھ پر بہت حاوی رہا۔
’جب میں نے ماڈلنگ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو میں نے ٹھیک ویسا ہی کیا۔ اس لیے مجھے اپنے آپ کو بہت زیادہ فخر ہے۔‘
واضح رہے کہ عدن نے گذشتہ نومبر میں ماڈلنگ ترک کر دی تھی جس کی وجہ سے فیشن کے دلدارہ اور مسلمان انفلوئنسرز کو دھچکا لگا جو ان کے نیا راستہ بناتے کیریئر کے مداح تھے۔
عدن نے امریکی ریاست منیسوٹا میں ہونے والے ایک مقابلے میں نئی روایت قائم کی ہے۔ وہ مقابلے میں حصہ لینے والی پہلی ماڈل بن گئیں جنہوں نے حجاب، برکینی اور پورے جسم کو ڈھانپنے والا سوئم سوٹ پہن رکھا تھا۔ ان کے اس انداز نے بعض یورپی ساحلوں پر ہونے والے فیش شوز اور امریکہ میں 2016 کے مقابلہ حسن کے دوران تنازعے کو جنم دیا۔
وہ 2019 میں کھیلوں کے میگزین ’سپورٹس السٹریٹڈ‘ کے سالانہ شمارے میں بھی انہی کپڑوں میں نمودار ہوئیں جب ان کی شہرت پھیل رہی تھی لیکن عدن کو ذاتی طور پر محسوس ہوا کہ انہیں محدود کر دیا گیا ہے، بعض اوقات عملی طور پر۔ عدن کے بقول: ’مجھے ایک باکس دیا گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کرنے کی پرائیویٹ جگہ، لیکن اکثر اوقات ایسا ہوا یہ صرف میں ہی تھی جسے پرائیویسی دی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں دیکھتی تھی کہ میری ساتھی خواتین سر عام ایک لباس اتار کر دوسرا پہن رہی ہیں۔ میڈیا کے لوگوں، خانساموں اور عملے، ڈیزائنرز اور معاونین کے سامنے۔ مجھے یہ قبول نہیں تھا۔ میں کسی ایسی انڈسٹری کا حصہ نہیں رہ سکتی تھی جہاں بنیادی انسانی احترام نہ ہو۔‘
گذشتہ برس فوٹو شوٹ اور کیٹ واکس چھوڑنے کا اعلان کر کے عدن نے خود کو آزاد محسوس کیا۔ اب وہ ڈیزائنر بن چکی ہیں۔ انسٹاگرام پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ’2016 میں کام شروع کرنے کے بعد سے میں نے واقعی اب بہت سکون محسوس کیا ہے۔ اسی جگہ رہنا حقیقی معنوں میں بہت برا تھا۔‘
وہ اپنی روایات جو زیادہ تر دوسری سپر ماڈلز سے بالکل مختلف ہیں، کے حوالے سے محسوس کرتی ہیں کہ بعض فیش برانڈز نے انہیں بگاڑ کر اور ایک حربے کے انداز میں پیش کیا۔
2017 کی مہم کے دوران ملبوسات کے امریکی برانڈ ’امریکن ایگل‘ نے ان کے حجاب کو جینز کی پینٹ کے ساتھ تبدیل کر دیا۔ اس وقت انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں عدن نے کہا کہ ’لیکن یہ میرا انداز نہیں ہے؟‘
انہوں نے اے ایف پی کو مزید بتایا: ’میں اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں میں اپنے حجاب کی اس انداز میں پہچان نہیں کروا سکتی جس میں، میں اسے روایتی انداز میں کیا کرتی تھی۔‘