افغانستان میں طالبان کی جانب سے منگل کو بیان دیا گیا کہ ’ملک میں دولت اسلامیہ یا القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند موجود ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔
طالبان کا یہ بیان دولت اسلامیہ کے مشرقی شہر جلال آباد میں بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔
گذشتہ ماہ کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان کو بین الاقوامی برادری کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ القاعدہ کے ساتھ تعلقات ختم کریں جس نے 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے کیے تھے۔
طالبان کو ایک ہی وقت میں دولت اسلامیہ کے ان ذیلی گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے دعووں سے نمٹنا پڑا جن کے ساتھ وہ کئی سالوں سے معاشی اور نظریاتی تنازعات کا شکار ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ القاعدہ نے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے اور بار بار اس عزم کا اعادہ کیا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان سے تیسرے ممالک پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سےخطاب کے دوران بتایا کہ ’ہم افغانستان میں ایسے کسی (شخص یا گروہ) کو نہیں دیکھتے جس کا القاعدہ سے کوئی تعلق ہو۔ ہم اس بات پر قائم ہیں کہ افغانستان سے کسی بھی ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‘
طالبان کو 2001 میں امریکی حمایت یافتہ قیادت کی افواج نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا کیونکہ انہوں نے 11 ستمبر کے حملوں کی ذمہ دار القاعدہ کی قیادت کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ پچھلے مہینے کابل واپس آئے تھے جب امریکی افواج نے انخلا کا اعلان کیا تھا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت اور فوج کا تختہ الٹ گیا تھا۔
دولت اسلامیہ سے الحاق شدہ افغان گروہ کو اسلامک سٹیٹ خراسان (آئی ایس آئی ایس-کے) کے نام سے جانا جاتا ہے جو اس خطے کا پرانا نام ہے۔
اس نام سے منسوب گروہ سب سے پہلے 2014 میں مشرقی افغانستان میں سامنے آیا تھا اور بعد میں دوسرے علاقوں بالخصوص شمال کی جانب پھیلتا چلا گیا۔
کئی سال پہلے امریکی فوج نے اس گروپ کی طاقت کا اندازہ تقریبا دو ہزار جنگجوؤں کے طور پر لگایا تھا حالانکہ اسی وقت چند افغان حکام نے کہا تھا کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اس گروہ نے سمگلنگ کے راستوں پر قابو پانے کے لیے امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج اور طالبان سے لڑائی کی اور دوسری جانب بظاہر ایک عالمی خلافت قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔
اس گروپ نے اختتام ہفتہ مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اسی گروہ نے پچھلے مہینے کابل ایئرپورٹ پر ایک خودکش بم حملہ کرنے کا بھی دعوی کیا تھا جس میں 13 امریکی فوجی اور کئی افغان شہری ہلاک ہوئے تھے جو ایئرپورٹ کے دروازوں کے باہر ہجوم کی صورت میں موجود تھے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تردید کی کہ اس دولت اسلامیہ کی افغانستان میں کوئی حقیقی موجودگی ہے البتہ انہوں نے کہا کہ وہ ’پوشیدہ طور پر کچھ بزدلانہ حملے کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’داعش جو عراق اور شام میں موجود ہے، یہاں موجود نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ لوگوں نے، جو ہمارے اپنے افغانی ہو سکتے ہیں داعش کی ذہنیت کو اپنا لیا ہے جو کہ ایک ایسا رجحان ہے جسے عوامی حمایت حاصل نہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’امارت اسلامیہ کی سکیورٹی فورسز تیار ہیں اور انہیں روکیں گی۔‘
طالبان کی عبوری کابینہ میں مزید نائب وزرا کا اعلان، مگر خاتون ابھی بھی نہیں
کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے نئی افغان حکومت کی عبوری کابینہ میں مزید اراکین کی شمولیت کا اعلان کیا ہے، جس میں ایک بار پھر کوئی بھی خاتون شامل نہیں۔
جن وزارتوں میں نئے وزرا و نائب وزرا شامل کیے گئے ہیں ان میں قومی اولمپک کمیٹی، وزارت دفاع، داخلہ، توانائی، تجارت اور صحت شامل ہیں۔
نئے وزرا اور ان کی وزارتوں کا اعلان منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ نئے وزرا اور ان کے قلم دان درج ذیل ہیں:
1- ڈاکٹر قلندر عباد، قائم مقام وزیر صحت
2۔ حاجی نورالدین عزیزی، قائم مقام وزیر تجارت
3۔ ڈاکٹر عبدالباری عمر، نائب وزیر صحت
4۔ ڈاکٹر محمد حسن غیاثی، نائب وزیر صحت
5۔ حاجی محمد بشیر، نائب وزیر تجارت
6۔ حاجی محمد عظیم سلطان زادہ، نائب (دوئم) وزیر تجارت
7۔ ملا محمد ابراہیم، نائب وزیر داخلہ
8۔ ملا عبدالقیوم ذاکر، نائب وزیر دفاع
9۔ انجینیئر نذر محمد متمن، قائم مقام چیئرمین، نیشنل اولمپک کمیٹی
10۔ انجینیئر مجیب الرحمان عمر، نائب وزیر توانائی
توقع یہ کی جا رہی تھی کہ طالبان کابینہ کی توسیع میں خاتون اراکین کو بھی شامل کریں گے مگر اس بار بھی کسی خاتون کو کابینہ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
اس سے قبل سات ستمبر کو طالبان نے اپنی کابینہ کا اعلان کیا تھا مگر اس میں کئی وزارتوں کے قلمدان نہیں سونپے گئے تھے۔
کابل میں منگل کو پریس کانفرنس میں بین الاقوامی سطح پر حکومت کے تسلیم کیے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ عالمی برادری انہیں جلد تسلیم کرلے گی۔
ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر مجاہد نے کہا کہ وہ افغانستان کی منجمد امداد کو غیرمنجمد کرنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد سے خواتین کے امور کی وزارت اور سکولوں میں لڑکیوں کی حاضری کے بارے میں بھی پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نگراں کابینہ خواتین کے کام اور تعلیم کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے۔
نگران کابینہ میں اطلاعات و ثقافت کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم لڑکیوں کو سکول واپس لانے کے طریقے پر کام کر رہے ہیں۔
ترجمان نے پاکستان وزیر اعظم عمران خان کی افغانستان میں امن، استحکام اور انکلوسیو حکومت کے قیام کے لیے کوششوں کو سراہا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان وزیر اعظم عمران خان کے ’مثبت بیانات‘ کو افغانستان کے معاملات میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھتے۔
برہان الدین ربانی ایجوکیشن یونیورسٹی کا نام تبدیل
طالبان کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برہان الدین ربانی ایجوکیشن یونیورسٹی کا نام تبدیل کرکے دوبارہ کابل ایجوکیشن یونیورسٹی کردیا گیا ہے۔
طالبان کا یہ اعلان جمعیت اسلامی کے سابق رہنما برہان الدین ربانی کے قتل کی 10 ویں برسی کے موقع پر سامنے آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برہان الدین ربانی سات ستمبر کو کابل میں ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
یہ حملہ ایک ایسے شخص نے کیا تھا جو کابل میں امن کے لیے طالبان کے ایلچی برہان الدین ربانی سے ملنے آیا تھا۔ برہان ربانی اس وقت اعلیٰ امن کونسل کی صدارت کر رہے تھے۔
طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر مولوی عبدالباقی حقانی نے کہا کہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو کسی بھی سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھنا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’تعلیمی اداروں کو اپنے معاملات اسلامی، سائنسی اور پیشہ ورانہ معیار کے مطابق چلانے چاہییں۔‘
امریکی ڈورن حملے کے جائزے کا حکم
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے گذشتہ ماہ 29 اگست کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت 10 افغان شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کا اعلیٰ سطح پر جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔
پینٹاگون نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ اس حملے میں داعش کا ایک جنگجو ہلاک ہوا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق لائیڈ آسٹن اس بات پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ کیا کسی فوجی تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پیر کو بتایا کہ آسٹن نے امریکی فضائیہ کو کہا کہ وہ سینٹرل کمانڈ کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے تھری یا فور سٹار رینک کے عہدے کا ایک افسر مقرر کرے، جو اس سانحے کی طرف جانے والے واقعات کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ لے۔
اہم نتائج یہ تھے کہ اس ڈرون حملے میں صرف افغان شہری مارے گئے تھے اور یہ کہ امریکی فوج کو یہ سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی کہ وہ سفید ٹویوٹا کرولا جسے انہوں نے گھنٹوں تک ٹریک کیا اور پھر ہیل فائر میزائل کا نشانہ بنایا، واقعی کوئی خطرہ تھا۔
اس کارروائی کے بارے میں فوج کے ابتدائی دعوؤں اور زمینی حقائق کے درمیان تضادات تیزی سے سامنے آئے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس اور دیگر ذرائع ابلاغ کی تنظیموں نے اطلاع دی تھی کہ ٹارگٹ کی گئی گاڑی کا ڈرائیور امریکہ کی ایک انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم میں کافی عرصے سے ملازم تھا۔
پینٹاگون کے اس دعوے کے باوجود کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا، کسی دوسرے بڑے دھماکے کے آثار نہیں ملے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ ان کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ڈرون کے ذریعے نشانہ بنائی گئی گاڑی کو ابتدائی طور پر کابل میں داعش کے ایک کمپاؤنڈ میں دیکھا گیا تھا اور اسے امریکی انٹیلی جنس نے آٹھ گھنٹے تک ٹریک کیا تھا۔ میک کینزی نے کہا کہ گاڑی کے بارے میں انٹیلی جنس افسوس ناک طور پر غلط نکلی۔
امریکی فوج نے ابتدائی طور پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ گاڑی میں کم از کم داعش کا ایک جنگجو مارا گیا ہے، لیکن میک کینزی کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس واقعے میں صرف معصوم شہری مارے گئے۔ میکنزی نے غلطی قبول کرتے ہوئے معافی مانگی۔
انہوں نے پینٹاگون میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا: ’یہ خاص کارروائی یقینی طور پر ایک خوفناک غلطی تھی اور ہمیں اس پر افسوس ہے، اور میں بہت واضح ہوں کہ ہم اس کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں۔‘
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کو نظرثانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک تحریری بیان میں کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سینٹرل کمانڈ نے غلط حملے کے بارے میں ’تمام دستیاب سیاق و سباق‘ پر غور کیا ہے اور یہ کہ مکمل احتساب پر غور کیا جائے۔
مذکورہ حملے کے ازسرنو جائزے کا فیصلہ امریکی فوج کے کابل سے انخلا کے آخری گھنٹوں میں کی گئی غلطیوں کی سنجیدگی سے عکاسی کرتا ہے، جس میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افغانوں، امریکیوں اور دیگر کا انخلا شامل تھا۔
یہ انخلا داعش سے منسلک تنظیم داعش خراسان کی جانب سے حملوں کے خطرے کے تحت کیا گیا تھا، جس نے امریکی ڈرون حملے سے تین دن قبل کابل ایئرپورٹ کے باہر ایک مہلک خودکش بم دھماکہ کیا تھا۔
جان کربی نے کہا کہ امریکی فضائیہ کے اس جائزے میں سینٹرل کمانڈ کی تحقیقات کا مکمل مطالعہ کرکے سفارش کی جائے گی کہ کیا اس میں ملوث کسی کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
کربی نے کہا: ’اگر احتساب ہونا ہے تو کس کا اور کس طرح سے، اس کے بارے میں فیصلے الگ الگ ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جائزہ لینے والے افسر کی تقرری کے 45 دن کے اندر جائزہ مکمل کیا جانا ہے۔