انگلش بولنگ فیڈریشن نے بعض کاؤنٹی اور قومی سطح کے مقابلوں میں خواتین کے شارٹس (چھوٹے سائز کی نیکر) پہننے پرپابندی لگا دی ہے جس کے بعد فیڈریشن صںفی امتیاز کے تنازعے کا شکار ہو چکی ہے۔
برطانیہ کی قدیم ترین نیشنل بولنگ آرگنائزیشن نے نومبر2018 میں اپنے سالانہ اجلاس میں نیا ہدایت نامہ جاری کیا تھا، تاہم اس کا اطلاق گذشتہ ماہ کھیل کا سیزن شروع ہونے پر کیا گیا۔
برطانیہ میں بولنگ کے مرد کھلاڑی کھیل کے دوران شارٹس یا پاجامہ پہن سکتے ہیں لیکن خواتین کو صرف ایسا پاجامہ یا دہری چنٹ والا سکرٹ پہننے کی ہی اجازت ہے جو ان کے گھٹنوں تک آتا ہو۔
اس متنازع پابندی کو بعض کھلاڑیوں کی جانب سے صنفی امتیاز قرار دیا گیا ہے۔ مشرقی اینگلیکن کاؤنٹی ’سفولک‘ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے پابندی کو ’بھونڈا صنفی امتیاز‘ قرار دیا۔
خاتون کا کہنا ہے کہ وہ 15 برس سے بولنگ کھیل رہی ہیں۔ یہ بہت عمدہ کھیل ہے لیکن اب اسے ماضی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب اعلان کیا گیا تھا کہ کھیل میں شارٹس کی اجازت ہوگی تو میرے علم کے مطابق بہت سی خواتین نے شارٹس خریدے لیکن سیزن کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ اسے پہننے کی اجازت صرف مردوں کو ہوگی۔
کیمبرج شائر میں کاسل کیمپس بولنگ کلب کے سیکرٹری روئے اوتھم نے دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو میں کہا کہ خواتین کو شارٹس پہن کر بولنگ کھیلنے کی اجازت ہونی چاہییے تاہم سب خواتین کو نہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ مردوں اور خواتین کے ساتھ مختلف سلوک کی وجہ انہیں سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ خواتین کی غلطی ہے۔ ان کی بولنگ فیڈریشن کی اپنی صدر ہیں لیکن ہماری انتظامی کمیٹی ایک ہونی چاہیے۔ لباس کے معاملے میں سب کو آزادی ہے لیکن یہ بہت مختصر نہیں ہونا چاہیے۔
انگلش ویمن بولنگ فیڈریشن نے کھیل میں خواتین کے لباس کے معاملے میں صنفی امتیاز کا الزام مسترد کردیا ہے۔ قومی سطح پر فیڈریشن کی صدر کیرول سوان کے مطابق فیڈریشن لباس سے متعلق قواعد میں تبدیلی سے پہلے مقامی کلب میں ایک قرارداد پیش کرے گی۔ کاؤنٹی کی طرف سے قرارداد منظور ہونے کی صورت میں اسے غور کے لیے فیڈریشن کے سالانہ اجلاس کے لیے بھیجا جائے گا جہاں 13 کاؤنٹیز اپنے نمائندوں کے ذریعے قرارداد پر ووٹ دیں گی۔
مس سوان نے واضح کیا کہ کسی خاتون نے شارٹس پہننے کی تجویزنہیں دی اور یہ تجویز آنے تک خواتین شارٹس نہیں پہنیں گی۔