ایران اور سعودی عرب سے ملنے والے حالیہ اشارے بتا رہے ہیں کہ دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے اختلافات اور باہمی کشیدگی میں کمی لانے کے لیے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان نئے رابطے 19 ستمبر 2019 کو سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں استوار ہوئے۔ ان حملوں کی وجہ سے سعودی تیل کی نصف پیداوار متاثر ہوئی۔ حملوں کا ذمہ دار تہران کو ٹہرایا جاتا رہا ہے۔
ایران علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا خواہاں دکھائی نہیں، تاہم کیے جانے والے حملوں میں یہ پیغام ضرور پنہاں تھا کہ تہران خطے میں بڑا رسک لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مشتبہ ایرانی حملے کے بعد امریکہ کی جانب سے تہران کے خلاف فوجی کارروائی میں پس وپیش اور ریاض کے تزویراتی اثاثہ جات کے تحفظ اور سکیورٹی کی قلعی کھل گئی۔
گذشتہ 40 برسوں سے دونوں ملک خطے میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کی کوششیں کرتے چلے آئے ہیں اور بعض حلقے اسے سنی اور شیعہ اسلام کے تاریخی تنازع سے بھی جوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض ماہرین نے اسے ’مشرق وسطیٰ کی سرد جنگ‘ سے تشبیہ دی۔
علاقے کے بدلتے ہوئے حالات نے تہران اور ریاض کو کشیدگی میں، خواہ وقتی سہی، کمی لانے پر آمادہ کیا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان رابطوں میں امریکی شمولیت سے متعلق کوئی وضاحت نہیں ملتی، تاہم مملکت میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے جواب میں مایوس کن امریکی ردعمل اور کانگریس کے دباؤ کے تناظر میں سعودی عرب ان تعلقات کو جاری رکھنے میں آزاد محسوس کرتا ہے۔
ٹرمپ حکومت کے خاتمے پر امریکی تعاون کے بغیر ایران سے براہ راست مذاکرات کے ذریعے سعودی عرب اب معاملات کو سدھارنے کی اپنے تئیں ایک کوشش کر کے دیکھنا چاہتا ہے۔
ان مذاکرات کی پہلی نشانی اخبار فنانشل ٹائمز میں ملی جب اپریل کے وسط میں ایک خبر میں یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ملکوں کے اہلکار بغداد میں ملے اور اس ملاقات میں تعلقات میں بحالی پر بات چیت ہوئی ہے۔
آغاز پر سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کی تھی مگر کچھ ہفتوں بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ’العربیہ‘ ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ’ایران سے اچھے تعلقات‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے الفاظ نے کئی حلقوں کو حیران کیا کیونکہ انھوں نے تین سال قبل کہا تھا کہ ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کو ’دیکھ کر ہٹلر بھی اچھا آدمی معلوم ہوتا ہے۔‘
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے ایران کے ساتھ بات چیت کے اشارے کے بعد اب گیند ایران کے کورٹ میں ہے۔ یہ اب تہران پر منحصر ہے کہ وہ خطے کے استحکام میں معاونت کرتا ہے یا شمالی کوریا کی طرح مسترد شدہ ملک قرار پاتا ہے۔
اگر امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب ترجیحات بدل گئی ہیں اور امریکہ اس طرح دوسرے ملکوں میں جا کر مدد نہیں کرنا چاہتا، جیسے پہلے کی جاتی تھی۔
خود شرق اوسط میں بھی حالات بدل رہے ہیں اور خطے کے دو بڑے حریف ملک [ایران ۔ سعودی عرب] کو قریب لانے اور اختلافات کم کرانے کے لیے علاقائی سطح پر کوششوں کا سلسلہ جاری ہے، عراق اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ریاض اور تہران اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بیش تر وقت زمینی حقائق نظریاتی اختلافات پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ملک سمجھوتوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان براہ راست ملاقات کی خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب واشنگٹن حکومت ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے جوہری معاہدے میں واپسی کے حوالے سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ سعودی حکومت اس جوہری معاہدے کی مخالف رہی ہے۔
ریاض حکومت ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے سخت ضوابط کی حامی ہے ساتھ ہی اس کا مؤقف ہے کہ اس حوالے سے بات چیت میں خلیجی عرب ممالک کو بھی شامل کیا جائے اور ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ اس کے میزائل پروگرام کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنایا جائے۔
اگرچہ دونوں اطراف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں تاہم پھر بھی راتوں رات جنگ کے ماحول کو برادرانہ تعلقات میں ڈھلتا دیکھنا سب کی خواہش ضرور ہے مگر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سے پانی کو پلوں کو نیچے سے گزرنا باقی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں ملکوں کے وزرا خارجہ مذاکرات کی کامیابی کے امکان سے متعلق انتہائی محتاط ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ایرانی حکام اس ضمن میں ’انتظار فرمائے‘ کا بورڈ لگا کر بیٹھے ہیں جبکہ سعودی کیمپ اس معاملے پر لب کشائی کو ’قبل از وقت‘ قرار دے کر احتیاط کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
سعودی عرب کے لہجے میں تبدیلی واشنگٹن میں سیاسی کمان کی تبدیلی کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی ایران کے خلاف تھی۔ وہ اسرائیل کی آؤ بھگت میں واشنگٹن کے خلیجی اتحادیوں کو ساتھ ملا کر تہران کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے لیے کوشاں تھے۔
تاہم جو بائیڈن کے امریکی صدر بنتے ہی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کا لب ولہجہ تبدیل ہو گیا۔ ریاض کو امریکی موڈ کا اندازہ ہو گیا جس کے بعد انہوں نے مشرق وسطیٰ کے معاملات کو غیر ملکی پلیئرز کی مدد کے بغیر حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ قطر کے ساتھ سعودی عرب کی مصالحت بھی ریاض کی اسی تزویراتی سوچ کا مظہر ہے۔
سعودی عرب اور ایرانیوں کے درمیان اچھے روابط صرف باہمی تعلقات کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا اور خطے کے وسیع تر امن اور استحکام کے لیے ضروری ہیں۔
بین الاقوامی سیاست کے اس میدان میں کی جانے والی پہلی ’نیکی‘ یمن کی جنگ ختم کروا کر کی جا سکتی ہے جہاں دونوں ملک حریف گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
ادھر اسرائیل، فلسطینیوں پر اپنی بے رحمانہ بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، ایسے میں اسلامی دنیا کے اتحاد کے ذریعے صہیونی ریاست کو یہ پیغام جائے گا کہ اب نہتے فلسطینیوں کے خون سے کھلواڑ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جائے گا۔
دونوں ملکوں کو باہمی آزادی کا احترام اور مسلم دنیا میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیے۔