بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری حکام کے مطابق جمعرات کو علی الصبح آنے والے زلزلے سے تقریباً 20 افراد ہلاک اور درجنوں شدید زخمی ہوگئے۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 5.7 تھی اور اس کی زیر زمین گہرائی تقریباً 20 کلومیٹر تھی۔
زلزلے کے جھٹکے دارالحکومت کوئٹہ سمیت سبی، ہرنائی، پشین، قلعہ سیف اللہ، چمن، زیارت اور ژوب میں محسوس کیے گئے، جس کے نتیجے میں چھتیں اور دیواریں گرنے سے اموات ہوئیں۔
زلزلے کے نتیجے میں بجلی معطل ہوگئی اور ہسپتالوں میں ٹارچ کی روشنی میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔
صوبائی حکومت کے ایک عہدے دار سہیل انور ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون اور چھ بچے بھی شامل ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بھی ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ انہوں نے ہرنائی میں زلزلہ متاثرین کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فوری امداد کا حکم دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بروقت امداد اور معاوضے کے لیے نقصان کا فوری اندازہ لگایا جائے گا۔ ’میری تعزیت اور دعائیں ان خاندانوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا۔‘
I have ordered immediate assistance on an emergency basis for the Harnai, Balochistan, earthquake victims & for an immediate assessment of the damage for timely relief & compensation. My condolences & prayers go to the families who lost their loved ones.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) October 7, 2021
بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے سربراہ نصیر ناصر نے اے ایف پی کو بتایا کہ زلزلے کے نتیجے میں اب تک 15 سے 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ بلوچستان کا دور دراز پہاڑی شہر ہرنائی تھا، جہاں پکی سڑکوں، بجلی اور موبائل فون کی کوریج کی کمی سے امدادی کاموں میں خلل پیدا ہوا۔
زلزلے کی وجہ سے علاقے میں بجلی بند ہو گئی اور طبی عملے کو بغیر سہولیات کے سرکاری ہسپتال میں ٹارچ کی روشنی میں کام کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کے زیر انتظام ہرنائی ہسپتال کے ایک سینیئر عہدے دار ظہور ترین نے اے ایف پی کو بتایا: 'ہم ٹارچ اور موبائل فون کی فلیش لائٹس کی مدد سے بجلی کے بغیر کام کر رہے تھے۔'
’زیادہ تر زخمیوں کے ہاتھ پاؤں فریکچر ہوئے تھے۔ درجنوں افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد واپس بھیج دیا گیا جبکہ شدید زخمی ہونے والے 40 افراد کو ایمبولینسوں میں کوئٹہ بھیجا گیا ہے۔‘
بعدازاں سکیورٹی فورسز کے دستے بھی زلزلے سے متاثرہ علاقے ہرنائی میں امدادی کاموں کے لیے پہنچے اور متاثرہ آبادی کے لیے شیلٹرز اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ فراہم کیں۔
آرمی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس بھی زخمیوں کی طبی امداد کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کررہے ہیں اور نو شدید زخمیوں کو پاکستانی فوج کے ایوی ایشن ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ پہنچا دیا گیا۔
پاکستان اس خطے میں واقع ہے، جہاں انڈین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ملتی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں زلزلے آتے ہیں۔
اکتوبر 2015 میں پاکستان اور افغانستان میں 7.5 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں تقریباً 400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل آٹھ اکتوبر 2005 کو بھی ملک 7.6 شدت کے زلزلے سے شدید متاثر ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 73 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے۔