سینیئر جرنلسٹس فورم اور پریس کلب سیمینار کمیٹی کے تعاون سے عوامی ورکرز پارٹی نے گذشتہ روز ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے متبادل معاشی پالیسی کے حوالے سے سیاسی مباحثے کا انعقاد کیا جس میں ماہرِ اقتصادیا ت کے ساتھ ساتھ، خواتین، ماہرین، محققین، صحافیوں، طلبا، ترقی پسند سیاسی کارکنان اور عام شہریوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر 25 صفحات پر مشتمل پالیسی پیپر پیش کیا گیا جس کو ملک بھر میں عوام دوست حلقوں کا نمائندہ دستاویز بنانے کی تجویز رکھی گئی۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے عمار رشید نے (جو کہ پالیسی پیپر کے مصنفین میں سے ہیں) عوامی ورکرز پارٹی کی پوزیشن بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر 3−4 سالوں بعد پاکستان کو کشکول لے کے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف سے یہ تیرھویں مرتبہ بیل آؤٹ پیکج لیا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ بولا جاتا ہے اس سے معیشت کو سہارا ملے گا، بڑھوتری مستحکم ہوگی اور شدید مالیاتی خسارہ کم ہوگا مگر تجربات بتاتے ہیں کہ ہوتا اس سے برعکس ہے۔ ’معاشی بڑھوتری میں کمی واقع ہوتی ہے، افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے، بیروزگاری و غربت میں اضافہ ہوتا ہے، صحت و تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی ہوتی ہے۔ غرض عوام کی حیات ہر قسط کے بعد اجیرن ہوتی چلی جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ معاشی بحران کے بنیادی حقائق سے پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ’قومی سلامتی‘ کے نظریہ کی وجہ سے خطہ میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ دشمنی کی پالیسی اپناتا رہا ہے۔ چنانچہ عوام کی فلاح کو کبھی بھی معاشی پالیسی کا مرکز نہیں بنایا گیا۔ دوسری جانب زمینوں کی بندر بانٹ کرنے والے منافع خوروں پر نہ ٹیکس لگایا جاتا ہے اور نہ ہی سرمایہ کو پیداوری شعبوں میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے محض وقتی مہلت دے دیتے ہیں مگر ریاست کی ترجیحات کو آج دن تک تبدیل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غیر ضروری عسکری اخراجات میں کمی، قرضوں کی ساختِ نو اور ریلیف، قومی اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے اور ترقی پسندانہ ٹیکس کا نظام متعارف کرتے ہوئے بڑے اداروں، بڑے زمینداروں، ملوں کے مالکوں، رئیل اسٹیٹ کے گروہوں سے ٹیکس جمع کرکے مالیاتی خسارے میں کمی کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر عاصم سجاد اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا پیداوار اور زمین پہ توجہ مرکوز کیے بنا معاشی مشکلات کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ’گذشتہ چار دہائیوں میں پاکستان میں مسلسل صنعتی انہدام کاری ہوئی ہے جبکہ خدمات گزاری اور غیر رسمی معیشت میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں ہے پیسہ کے بہاؤ میں بڑھاوا آیا ہے جس کے نتیجے میں شہروں میں غیرمنظم آباد کاری ہوئی ہے اور ماحولیاتی تباہ کاری کی وجہ بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم میں ہنر مندی پہ توجہ دینی ہوگی تاکہ ہنرمندوں کے ذریعے ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔ برآمدات بڑھائی جاسکیں اور درآمدات کم کی جاسکیں۔ صنعت سازی کے ذریعے دوراندیشانہ بہتر معیشت استوار کی جاسکتی ہے۔
معیشیت دان اکبر زیدی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلاشبہ آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی ادارے جیسا کہ بین الاقوامی تنظیم برائے تجارت اورعالمی بنک نیولبرل نظریات کے زیرِ تسلط عمل کرتے ہیں۔ ’عالمی اور خطہ میں معاشی و سیاسی پستی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ مقامی سطح پر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہمیں عسکری و غیر عسکری اشرافیہ کی ناکامی پہ زور دینا چاہیے اور کس طرح ان کے گوش گزار کیا جاسکتا ہے جو کہ غیر پیداواری رئیل اسٹیٹ میں سٹہ بازی کرتے رہتے ہیں۔‘
سینیئر صحافی ضیاء الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1960−1970 کی دہائی میں معاشی پالیسی کبھی بھی غیرسیاسی نہیں بلکہ سیاسی تصور کی جاتی تھی یہاں تک کہ 1970 کے قومی انتخابات میں زرعی اصلاحات ہر جماعت کے منشور میں شامل تھا اور روٹی، کپڑا اور مکان کا انتخابی نعرہ مغربی پاکستان میں پذیرائی حاصل کرگیا۔ یہاں تک کہ 1980 کی دہائی میں بھی پروگریسیو معاشی متبادل انتہائی اہمیت کے حامل تھے لیکن سویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو کے دانش مند، صحافی اور سیاسی کارکنان مایوسی اور پست ہمتی کا شکار ہوگئے جس نے بہتوں کی نظریاتی سمتیں بدل دیں۔ انہوں نے کہا یہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے کہ تیسری دنیا کے ملک میں نوجوان ترقی پسندانہ معاشی متبادل پیش کر رہے ہیں۔
میڈیا میں متبادل معاشی مباحثوں کی عدم موجودگی پہ کیے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے عمبر شمسی نے کہا عوام تک محدود آگاہی اور بزنس و پالیسیوں میں نیولبرل نظریات سے متاثرانہ روشوں کے باعث متبادل مباحثے نہیں ہوتے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے تفصیلی متبادل پیش کیا گیا لیکن نیولبرل نظریات کا پرچار اس قدر مکمل ہوگیا ہے کہ محض انہی کا موقف ہی گردش کرتا ہے۔ یہ پالیسی پیپر درحقیقت نیولبرل سٹیٹس کی جڑوں میں پہلا وار ثابت ہوگا۔