’خدارا ہماری تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچائیں۔ ہمیں سفارت خانے والے کہتے ہیں کہ آپ طورخم بارڈر کراس کر کے پاکستان جا سکتے ہیں لیکن جب ہم طورخم بارڈر گئے تو وہاں پر ہمیں واپس بھیج دیا گیا کیونکہ طورخم بارڈر والے کہتے تھے کہ ہمارے پاس آپ کی فہرست موجود نہیں ہے۔‘
یہ کہنا تھا افغانسان سے تعلق رکھنے والے محمد سجاد کا جو پاکستان کی کامسیٹ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کے طالب علم ہیں اور اپنا سمسٹر ضائع ہونے کے خدشے سے پریشان ہیں۔
سجاد نے کابل سے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’ہم گزشتہ کئی دنوں سے کابل میں پاکستانی سفارخانے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ افغان طلبہ جو پاکستانی یونیورسٹیز میں پڑھتے ہیں، وہ طورخم باردڑ کے ذریعے پاکستان جا سکتے ہیں۔‘
تاہم سجاد کے مطابق جب طلبہ طورخم بارڈر گئے تو ان کو پورا دن وہاں پر روکا گیا اور پھر واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔
سجاد نے بتایا کہ ’ہمیں بارڈر پر بتایا گیا کہ آپ لوگوں کی فہرست ہمارے پاس نہیں ہے اور لسٹ کے بغیر ہم کسی بھی طالب علم کو نہیں چھوڑ سکتے۔‘
سجاد نے بتایا کہ وہ کامسیٹ یونیورسٹی میں تیسرے سمسٹر کے طالب علم ہیں اور ان کی کلاسز نو ستمبر سے شروع ہوئی ہیں اور وہ ماہانہ امتحان، اسائمنٹس اور کوئز امتحانات میں شریک نہیں ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سمسٹر کے مجموعی نمبروں میں ماہانہ امتحان کا اپنا حصہ ہوتا ہے، اور اگر یہ ضائع ہو گئے تو خدشہ ہے کہ میرا پورا سمسٹر ضائع ہو جائے گا۔‘
سجاد نے بتایا کہ ’ہم روزانہ پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرتے ہیں اور ساتھ میں کابل کی وزارت خارجہ سے بھی رابطے میں ہیں لیکن کہیں پر ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے تاکہ ہماری تعلیم میں خلل نہ آئے اور ہم بلا کسی روک ٹوک کے پاکستانی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کر سکیں۔‘
افغان طلبہ کو بارڈر پار کرنے کی اجازت کیوں نہیں ملی؟
افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے نے 13 اکتوبر کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’پاکستان نے ان 938 افغان طلبہ جو پاکستانی جامعات میں پڑھ رہے ہیں، کو طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔‘
پریس ریلیز کے ساتھ سفارت خانے نے طلبہ کی ایک فہرست بھی جاری کی تھی۔
تاہم جب 14 اکتوبر کو کچھ افغان طلبہ طورخم پہنچے تو انہیں بارڈر کراس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی حوالے سے پشاور میں اعلٰی تعلیم کے دفتر میں افغان طلبہ کے فوکل پرسن جہانزیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کچھ غلط فہمی کے نتیجے میں یہ طلبہ طورخم آئے تھے کیونکہ نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر کی ہدایات کے مطابق ان طلبہ کو 19 اکتوبر کو آنا تھا۔‘
جہانزیب نے بتایا کہ ’این سی او سی نے جو ہدایت نامہ جاری کیا تھا، اس میں لکھا گیا تھا کہ سکالرشپ پر پاکستانی جامعات میں پڑھنے والے طلبہ 19 اکتوبر جب کہ سیلف فنانس سکیم کے تحت پڑھنے والے 29 اکتوبر کو طورخم کے راستے پاکستان آسکتے ہیں۔‘
یہی بات افغانستان میں موجود طلبہ کو پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے بھی کہی گئی ہے۔ جب یہ طلبہ طورخم سے واپس چلے گئے تو انہوں نے سفارت خانے سے رابطہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سجاد نے بتایا کہ ’سفارت خانے کی جانب سے ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم 19 اکتوبر اور 29 اکتوبر کو طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔‘
سجاد کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس سے پہلے کچھ نہیں بتایا گیا تھا کہ این سی او سی کے کوئی ہدایات آئی ہیں۔ اب ہم انتظار کر رہے ہیں اور امید تو یہی ہے کہ ہمیں اجازت مل جائے گی۔ تاہم ہمیں لگتا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے اور بارڈر پر موجود عملے کے مابین رابطے کا فقدان ہے کیونکہ سفارت خانے والے ہمیں کہتے ہیں کہ ہم بارڈر پر آپ کے داخل ہونے کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہمارا ڈومین نہیں ہے۔‘
افغان طلبہ کے پاکستان میں داخل ہونے کے حوالے سے این سی او سی نے 14 اکتوبر کو ایک ہدایت نامہ بھی جاری کیا ہے(جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے )۔ اس ہدایت نامے میں لکھا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کی درخواست پر 938 افغان طلبہ کو طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے تاہم داخلے کے دوران کرونا ایس او پیز کا خیال رکھا جائے گا۔
ہدایت نامے کے مطابق صرف ایچ ای سی کی جانب سے منظور شدہ فہرست میں موجود طلبہ کو داخلے کی اجازت ہوگی اور ہر طالب علم کو طورخم میں داخلے سے 48 گھنٹے پہلے منفی کرونا ٹیسٹ رپورٹ دکھانا لازم ہو گا۔
اسی طرح ان طلبہ کو لنڈی کوتل اور راولپنڈی میں 10 دن تک قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔
ہدایت نامے کے مطابق کسی بھی طالب علم کو یونیورسٹی کی حدود میں قرنطینہ میں نہیں رکھا جائے گا اور لنڈی کوتل اور راولپنڈی میں قرنطینہ کے آٹھویں دن ان طلبہ کا کرونا ٹیسٹ کرایا جائے گا۔ جب کہ قرنطینہ ہی میں ان تمام طلبہ کو کرونا ویکسین بھی لگانا لازم ہوگا۔ ان ہدایات میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں کو الگ الگ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کو کہا گیا ہے کہ تقریبا 400 طلبہ کے لیے لنڈی کوتل یا پشاور میں قرنطینہ کا انتطام کیا جائے اور ان طلبہ کو طورخم سے پشاور کے قرنطینہ مرکز میں منتقل کرنے کے لیے انتظامات بھی کیے جائیں۔
اسی طرح پنجاب حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ تقریبا 350 طلبہ کے لیے راولپنڈی میں قرنطینہ مرکز کا انتظام کیا جائے۔ سندھ، اسلام آباد اور پنجاب کے جامعات میں پڑھنے والے طلبہ کو طورخم سے راولپنڈی لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کیا جائے۔