وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون کا ابتدائی مقام ڈی چوک، جو ہمیشہ احتجاج اور دھرنوں کا مرکز رہا ہے آج کل میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ دوبارہ منعقد کرانے کا مطالبہ کرنے والے طلبہ کا مسکن بنا ہوا ہے۔
ڈی چوک سے ریڈ زون میں جانے والی سڑک کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ چوک کے وسط میں سرخ دریوں پر دن کی دھوپ ڈھلتے ہی طلبہ براجمان ہو جاتے ہیں اور اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے ہیں۔
دن کا باقی حصہ یہ طلبہ ڈی چوک کے سامنے جناح ایونیو کی سروس روڈ کے فٹ پاتھوں پر گھنے درختوں کی چھاوں میں آرام کرتے ہیں جبکہ رات سخت زمین پر بچھی پتلی دریوں پر سو کر گزارتے ہیں۔
انٹری ٹیسٹ کے دوبارہ انعقاد کا مطالبہ کرنے والے بنوں سے آئے 19 سالہ حضرت عثمان کا کہنا تھا: ’ہم آٹھ دن سے اسلام آباد میں اور پانچ روز سے ڈی چوک میں احتجاج کر رہے ہیں، ادھر ہی کھاتے اور ادھر ہی سوتے ہیں، لیکن ابھی تک ہماری شنوائی نہیں ہوئی بلکہ ہمیں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔‘
ڈی چوک میں احتجاجی کیمپ لگانے سے قبل ان طلبہ نے تین روز تک ملک بھر کے میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے دفاتر کے سامنے بھی مظاہرے کیے۔
حضرت عثمان نے ملک میں جاری انٹری ٹیسٹ میں رشوت ستانی، بدعنوانیوں اور دوسری بے قاعدگیوں کے الزامات لگاتے ہوئے کہا: ’کئی سٹوڈنٹس نے پچھلے سال اچھے نمبرز لیے اور اس مرتبہ انہیں فیل کر دیا گیا ہے جبکہ اپنے کالجز اور بورڈز میں پوزیشنز لینے والوں کے بھی بہت کم نمبرز آئے ہیں۔‘
ڈی چوک میں احتجاج کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بعض علاقوں سے ہے جو ملک بھر میں 30 اگست سے شروع ہونے والے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلے کے لیے لازمی امتحان ایم ڈی کیٹ (میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمیشن ٹیسٹ) میں حصہ لے رہے ہیں۔
رواں برس ملک بھر میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں تقریبا 20 ہزار نشستوں کے لیے مجموعی طور پر ایک لاکھ 40 ہزار طلبہ و طالبات ایم ڈی کیٹ میں حصہ لے رہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایم ڈی کیٹ کے دوبارہ انعقاد کے لیے بھی مظاہرے جاری ہیں جبکہ اسلامی جمعیت طلبہ نے جمعرات کو پی ایم سی کے دفاتر کے باہر بھی احتجاجی جلوس کا انعقاد کیا تھا۔
ڈی چوک میں موجود احتجاج کرنے والے طلبا کے رہنما عرفان یوسف کا کہنا تھا کہ اب تک ایم ڈی کیٹ میں حصہ لینے والوں میں سے 95 فیصد امیدواروں کو فیل کر دیا گیا ہے اور اکثر کے نمبرز گذشتہ سال سے بھی کم آئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ ایم ڈی کیٹ آن لائن امتحان ہے جس میں پرچہ حل کرنے کے بعد 30 منٹ میں نتیجہ امیدوار کو مل جاتا ہے جبکہ اس امتحان میں کامیابی کے لیے 65 فیصد نمبرز لینا ضروری ہے۔
عرفان یوسف نے کہا کہ مختلف صوبوں کے نصاب میں بھی فرق ہے، اور ایم ڈی کیٹ میں آنے والے کئی سوال اکثر امیدواروں کے لیے آوٹ آف کورس تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا واحد مطالبہ ایم ڈی کیٹ 2021 کا دوبارہ انعقاد ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈی چوک میں احتجاج کرنے والوں کی اکثریت ایسے طلبہ کی ہے جو یا تو ایم ڈی کیٹ 2021 میں فیل ہو چکے ہیں، یا ان کے نمبر گذشتہ سالوں سے کم آئے ہیں۔
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے طالب علم محمد عامر نے ایف ایس سی کے فائنل امتحان میں (1100 میں سے) 948 نمبر حاصل کیے تھے، لیکن گزشتہ تین سالوں سے ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ میں ناکام ہو رہے ہیں۔
ڈی چوک کے احتجاج کے دوران محمد عامر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’مجھے یقین ہے میرا پرچہ بہت اچھا ہوا ہے، لیکن ان کے سسٹم میں خرابی ہے، ٹھیک جواب کو بھی غلط قرار دے دیا جاتا ہے۔‘
عرفان یوسف کا کہنا تھا کہ ایم ڈی کیٹ کے سافٹ ویئر میں خرابیاں اور کی پیپر میں غلطیاں ہیں، جس کے باعث درست جوابات کو غلط قرار دیا جا رہا ہے۔
’ہم نے پی ایم سی سے کہا کہ ہماری مرضی کے صرف چار حل شدہ پرچوں کو دوبارہ چیک کر لیا جائے، ہمیں یقین ہے ان میں جوابات درست ہیں لیکن انہیں نمبر نہیں دیے گئے۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کی پیپرز (key paper) میں غلطیوں کے باعث ہو رہا ہے۔
بعض طالب علموں نے ملک کے دور دراز علاقوں مین انٹرنیٹ کے مسائل کا ذکر بھی کیا۔
پی ایم سی کا موقف
پی ایم سی نے چند روز قبل جاری ہونے والے ایک بیان میں الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کے نمائندوں نے چند روز قبل کمیشن کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی سے ملاقات کی جس میں ان کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے۔
بیان میں بتایا گیا کہ ایم ڈی کیٹ کے امتحانی مراکز میں وائرلیس لوکل ایریا نیٹ ورک (LAN) موجود ہے اور انٹرنیٹ یا وائی فائی میں خرابی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
پی ایم سی کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ایم ڈی کیٹ کا امتحان دینے والے ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ امیدواروں نے جو سوالات چھوڑے یا جوابات نہیں دیے وہ صرف 0.13 فیصد تھے اس لیے جوابات کے بعد میں سسٹم میں ڈالے جانے یا ان میں تبدیلی سے متعلق تشویش درست نہیں ہے۔
پی ایم سی نے مزید وضاحت کی کہ ہے ایم ڈی کیٹ کے لیے نصاب نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ نے تیار کیا تھا جس کا جائزہ تمام صوبائی بورڈز اور فیڈرل بورڈ کے نمائندوں سے کروایا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ امیدوار کو نہ تو ان کے سوالات اور جوابات کی کاپی فراہم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان کو پرچہ دکھایا جا سکتا ہے کیونکہ پیپر ڈیجیٹل فارمیٹ میں ہے اور اسی طرح جوابات بھی کمپیوٹر کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔
پی ایم سی نے یقین دلایا کہ تمام نتائج کا امتحان کے بعد تجزیہ کیا جائے گا اور جانچ پڑتال کے بعد ہی حسب ضرورت اصلاح کی جائے گی۔