فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پیرس میں ہونے والے تین روزہ اجلاس میں پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں ہی رکھتے ہوئے ترکی، اردن اور مالی کو بھی گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیرس میں ہونے والا یہ اجلاس 19 اکتوبر سے 21 اکتوبر تک جاری رہا اور جمعرات کو اس اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں پر بریفنگ دی گئی ہے۔
فیٹف کے سربراہ مارکس پلیا نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’پاکستان انکریزڈ مانیٹرنگ لسٹ (گرے لسٹ) میں رہے گا مگر پاکستان نے 34 میں 30 نکات پر وسیع طور پر عمل در آمد کر لیا ہے۔‘
بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر ایف اے ٹی ایف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’میں بھارتی وزیر خارجہ کے بیان پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ فیٹف ایک تکنیکی ادارہ ہے۔ ہم اپنے فیصلے متفقہ طور پر کرتے ہیں اور اس میں کوئی ایک ملک فیصلہ نہیں کرتا۔ اس حوالے سے 39 نکات پر غور کیا جاتا ہے اور پاکستان کے بارے میں بھی فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا ہے۔‘
بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے سوال پر فیٹف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے 34 میں سے 30 نکات پر عمل در آمد کر لیا ہے جس سے پاکستانی حکومت کا عزم واضح ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہو رہی۔ پاکستانی حکومت ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد باقی چار نکات پر عمل در آمد کریں۔‘
فیٹف کی رپورٹ کے مطابق جون 2021 سے پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ / سی ایف ٹی کے ضوابط کے حوالے سے فوری اقدامات کیے ہیں جن میں قانونی ترامیم بھی شامل ہیں تاکہ عالمی تعاون کے فریم ورک کو وسیع کیا جا سکے۔
رپورٹ میں پاکستان کو جن حوالوں سے مزید اقدامات لینے کا کہا گیا ہے ان میں اس بات کے شواہد فراہم کرنا شامل ہیں کہ پاکستان ان پابندیوں کے اثر کو اپنی حدود کے پار بھی برھانا چاہتا ہے اور اس کام کے لیے اسے اقوام متحدہ کی فہرستوں کے لیے مزید افراد کے ناموں کو شامل کرانا ہوگا۔
اس کے علاوہ پاکستان کو منی لانڈرنگ سے متعلق تحقیقات اور مقدمات میں اضافے کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنے رسک پروفائل کے حوالے سے ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی اور تحقیقات کرنی ہوں گی جو اس کام میں ملوث ہوں۔ پاکستان کو اپنے غیر ملکی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر ایسے افراد کو تلاش کرنا، ان کے اثاثے منجمد اور ضبط کرنے ہوں گے۔
پاکستان کو کب گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو کہ مختلف ممالک کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور انسداد منی لانڈرنگ جیسے اقدامات پر نظر رکھتا ہے۔
جون 2018 میں فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تھا اور 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا تھا۔
حالیہ اجلاس سے پہلے توقع یہی کی جا رہی تھی کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا کیونکہ جون 2021 میں ہونے والے اجلاس کے بعد فیٹف کے سربراہ مارکس پلیا نے کہا تھا کہ فیٹف ایکشن پلان کا آخری نکتہ مکمل ہونے اور اس کے بعد ایشیا پیسفک گروپ کے چھ نکات پر مکمل عمل در آمد ہونے کے بعد دو دفعہ جائزہ ٹیم پاکستان بھیجی جائے گی جو کہ ان اقدامات کا زمینی جائزہ لے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس جائزے کے بعد ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
جون کے بعد سے فیٹف کی جائزہ ٹیم پاکستان نہیں آئی تھی جس کی وجہ سے قوی امکان یہی تھی کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔
گرے لسٹ کے پیچھے ’سیاسی مقاصد‘ اور بھارت کا ہاتھ
پاکستان نے ماضی میں متعدد بار الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں مگر فیٹف کی جانب سے ہمیشہ اس تاثر کو رد کیا جاتا رہا ہے۔
مگر جون 2021 کے اجلاس کے بعد فیٹف کے حوالے سے دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی تھی جب بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے گرے لسٹنگ میں ہونے کے پیچھے بھارت کی کوششوں کا ذکر کیا تھا۔
18 جولائی 2021 کو بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا کہ ’مودی حکومت نے یہ یقینی بنایا ہے کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں رہے۔‘
اس بیان کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ’بھارتی بیان نہ صرف اس کا اصلی چہرہ بے نقاب کرتا ہے بلکہ فیٹف میں بھارت کے منفی کردار پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی بھی تائید کرتا ہے۔‘
گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟
ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔
بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔
گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔