میرا سیٹھی کا شمار پاکستان کی جانی پہچانی ادکاراؤں میں ہوتا ہے اور اب سے چند ماہ قبل ان کی انگریزی کہانیوں کی کتاب ’آر یو انجوائنگ‘ شائع ہوئی ہے، جسے عالمی میگزین ووگ نے 2021 میں لازمی پڑھنے والی بہترین کتابوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد میرا پہلی بار پاکستان آئیں تو انڈپینڈنٹ ادو نے ان سے ملاقات کی اور ان سے اس کتاب کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہ آخر انہوں نے اس کی تکمیل میں پانچ سال کیوں لگا دیے۔
اس سوال کے جواب میں میرا سیٹھی کا کہنا تھا کہ ذہن میں موجود خیالات اکثر کچے ہوتے ہیں، انہیں مجتمع کرکے کاغذ پر اتارنے میں وقت لگتا ہے، اس تحت الشعور میں موجود خیال شعور میں آتے آتے پانچ سال لگ ہی گئے۔
اپنی کہانیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے اپنے مشاہدات پر مبنی ہیں، جب وہ کہیں جاتی ہیں تو ایک مصنف کی حیثیت سے گہری نگاہ ڈالتی ہیں، اس لیے ان کی تحریر میں پاکستانی معاشرے میں موجود جدت اور روایت کے ٹکراؤ کے اثرات نظر آتے ہیں۔
میرا سیٹھی کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے میں موجود گھٹن کی وجہ جاننا چاہتی ہیں کہ یہ کیوں ہے اور اسے کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔
میرا سیٹھی نے انگریزی میں کتاب لکھنے اور جابجا اردو الفاظ استعمال کرنے پر کہا کہ وہ انگریزی اور اردو دونوں میں سوچتی ہیں۔ ’میں نے جگہ کی مناسبت سے جملہ لکھا اور موڈ کے مطابق انگریزی یا اردو لفظ استعمال کیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی کتاب امریکہ اور برطانیہ میں چھپی ہے اور پھر وہاں سے پاکستان میں درآمد کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کہانیوں سے پاکستان کے عالمی امیج کے بارے میں میرا نے کہا کہ انہوں نے اپنے حساب سے کہانیاں لکھی ہیں، اس میں دلچسپی کا عنصر دل سے آنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر نکتہ چینی بھی ہوئی ہے مگر وہ ٹھیک ہے یہ ان کا فن ہے۔
میرا کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ یہ کہانیاں اردو میں بھی شائع ہوں، اس لیے اگر کوئی اس کتاب کا ترجمہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو تو وہ ان سے رابطہ کرسکتا ہے۔
اپنی کہانیوں کو ٹی وی یا فلم کی صورت میں ڈھالنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایک پروڈیوسر سے بات ہوئی ہے جس کے لیے سکرین پلے لکھنا پڑے گا، تاہم میرا سیٹھی کے مطابق ان کی کہانیاں ’بولڈ‘ ہیں۔
ہم ٹی وی کے مزاحیہ ڈرامے ’چپکے چپکے‘ میں گُل آپا کا کردار کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ڈراما اس کی کاسٹ کی وجہ سے کیا تھا، اور بحیثیت ایک اداکارہ کے، جو ان کا فن ہے، اس لیے وہ یہ نہیں سوچتیں کہ اصل زندگی سے ڈرامے کا کردار کس حد تک مختلف ہے۔
میرا کے مطابق وہ اس چیز سے اجتناب کرتی ہیں جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے اور وہ فن کو درس سے الگ رکھنے کی قائل ہیں۔
پاکستان میں حقوقِ نسوان کی تحریک کے بارے میں بات کرتے ہوئے میرا سیٹھی نے بتایا کہ مساوی حقوق ہر کامیاب معاشرے کی علامت ہیں اور پاکستان میں حالیہ دنوں میں خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
’ابھی پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کا بِل بھی منظور نہیں ہوسکا، کیونکہ اس میں سیاست تھی، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ حکومت کو ایسی چیزیں سنجیدگی سے لینی چاہییں۔‘
میرا سیٹھی کا مطالبہ ہے کہ ملک کے آئین میں ہی خواتین کے حقوق کو ذرا تگڑا ہونا چاہیے تاکہ کسی کو خواتین کے حقوق کے بارے میں فکر لاحق ہی نہ ہو۔
حال ہی میں لکس سٹائل ایوارڈز میں خواتین کے ملبوسات پر ہونے والی شدید نکتہ چینی کے بارے میں میرا نے کہا کہ ’میں ہوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ مردانگی کیا ہے؟‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ مردانگی عورت کے لباس پر شروع اور اس پر ختم کیوں ہوتی ہے؟ اگر عورت کے لباس میں شوخی نظر آئے تو کسی کی مردانگی کو دھمکی کیوں لگتی ہے؟ میرا سیٹھی نے کہا کہ اس ملک میں روادار مرد اور بااختیار عورت ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
مشہور و معروف والدین کی اولاد ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں اس کا فائدہ اور نقصان دونوں ہوا ہے کیونکہ جو لوگ ان سے نظریاتی طور پر اتفاق کرتے ہیں ان سے فائدہ ہوا اور جو اختلاف رکھتے تھے وہ انہیں بھی مشکوک نظر سے دیکھتے تھے، تاہم اب انہیں اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔