ایمریٹس کی پہلی پرواز اڑانے والے پاکستانی پائلٹ کا انتقال

ایمریٹس کے ساتھ کیپٹن فضل غنی کی شمولیت پی آئی اے کے دبئی کے ساتھ معاہدے کا نتیجہ تھی، جس میں ایئر لائن کے قیام میں مدد کے لیے پی آئی اے نے اپنے پائلٹ، انجینیئر اور طیارے فراہم کیے تھے۔

دنیا کی بہترین ائیرلائنز میں سے ایک ’ایمریٹس‘ کی پہلی پرواز اڑانے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے پائلٹ کیپٹن فضل غنی میاں جمعے کو انتقال کر گئے۔

پی آئی اے کے سی ای او ارشد ملک نے کیپٹن غنی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ کیپٹن غنی پی آئی اے کے انتہائی مایہ ناز کپتان تھے، جو بہت محب وطن اور فرض شناس شخصیت کے حامل تھے۔

کیپٹن غنی کو 1987 میں پی آئی اے نے متحدہ عرب امارات کی پہلی ایئرلائن کے فلائٹ آپریشن کے قیام کی ذمہ داری سونپی تھی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کیپٹن غنی نے متحدہ عرب امارات کی شہریت کی پیشکش سے معذرت کرکے واپس پی آئی اے جوائن کی تھی۔

گذشتہ سال اکتوبر میں عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹریو میں کیپٹن غنی کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے فلیگ کیریئر کی پہلی پرواز اڑانا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

ایئربس اے 300 طیارے، جسے پی آئی اے سے ہی ویٹ لیز پر حاصل کیا گیا تھا، کے ذریعے ایمریٹس کی پہلی پرواز EK600 نے 25 اکتوبر 1985 کو دبئی سے کراچی کے لیے ٹیک آف کیا تھا۔

امارات کی پہلی ایئر لائن کے قیام کو یاد کرتے ہوئے اور تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس کے آپریشنز کی نگرانی کرنے والے کیپٹن غنی کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے فلیگ کیریئر کی کامیابی اس کی قیادت میں پنہاں ہے جس کے لیے ہمیشہ قابلیت کو ترجیح دی گئی۔

انہوں نے انٹرویو میں دبئی کی اس فضائی کمپنی کی کامیابی کے پیچھے چھپے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے مزید کہا تھا: ’ایمریٹس اپنے عملے کو میرٹ پر منتخب کرتا ہے اور وہ انہیں اختیارات کے ساتھ ذمہ داریاں دیتا ہے جن کے کام میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں کی جاتی۔‘

’مجھے فخر ہے کہ میں ان قابل لوگوں کا حصہ تھا جنہوں نے ایمریٹس ایئرلائن کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔‘

ایمریٹس کے ساتھ ان کی شمولیت پی آئی اے کے دبئی کے ساتھ معاہدے کا نتیجہ تھی، جس میں متحدہ عرب امارات کی ایئر لائن کے قیام میں مدد کے لیے پی آئی اے نے اپنے پائلٹ، انجینیئر اور دو طیارے فراہم کیے تھے۔

کیپٹن غنی نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا تھا: ’میں یکم اکتوبر 1985 کو دبئی پہنچا اور ایمریٹس ایئر لائن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ماریس فلاناگن اور ان کی ٹیم سے ملا۔ ہم نے ایمریٹس ایئر لائن کی بنیاد رکھنے کے لیے دو طیاروں کی آمد سے متعلق اور آگے کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا۔‘

’ہم ہر روز پیش رفت پر تبادلہ خیال کرتے تھے اور رپورٹس تیار کرتے تھے اور اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ہم اسے حل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے۔‘

انہوں نے دبئی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے صدر اور امارات گروپ کے بانی شیخ احمد بن سعید المکتوم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’میں شیخ احمد کی عظیم قیادت کا شکر گزار ہوں جو ان ملاقاتوں میں شامل رہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس نوزائیدہ فضائی کمپنی کے دونوں طیاروں کو کراچی میں ہی پی آئی اے کے ہینگر میں ایمریٹس کے رنگوں میں پینٹ کیا گیا تھا اور یہ سب رازداری سے کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں دبئی لے جایا گیا۔

کیپٹن غنی نے بتایا: ’18 اکتوبر 1985 کو پاکستانی انجینیئروں کی ایک ٹیم، دو طیاروں کے ساتھ، جن پر تازہ تازہ ایمریٹس کا لوگو کراچی میں پینٹ کیا گیا تھا، دبئی ہوائی اڈے پر پہنچی۔ ان طیاروں کو لوگوں کی نظروں سے بچا کر ہوائی اڈے کے کونے میں ایک ہینگر میں رکھا گیا تھا۔ 23 اکتوبر 1985 کو پاکستانی ٹیم کو دبئی کے اوپر پانچ خصوصی وہ آئی پی پروازیں چلانی پڑیں۔‘

سابق کپتان نے بتایا کہ ’22 اکتوبر کو ہمیں رات گئے کچھ یونیفارم ملے۔ لانڈری بند تھی لیکن ہوٹل میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے یونیفارم لیا اور اسے اپنی رہائش گاہ پر لے جا کر استری کر کے اور آدھی رات کے قریب واپس لے آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں دعا کر رہا تھا کہ کچھ برا نہ ہو۔ پہلی پرواز تقریباً 11 بجے تھی اور شیخ محمد بن راشد المکتوم (دبئی کے حکمران) اور دیگر شاہی معززین طیارے میں سوار تھے۔ ہم نے دبئی کے اوپر سے 45 منٹ تک پرواز کی اور ہمیں دبئی ایئر فورس کے فائٹر پائلٹوں نے ایسکارٹ کیا۔‘

دو دن بعد متحدہ عرب امارات کے پرچم کے ساتھ فضائی کمپنی نے باضابطہ طور پر اپنی پہلی پرواز روانہ کی۔

’25 اکتوبر کو متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ شاہی معززین اور ایمریٹس ایئر لائن کے عملے کے ساتھ کراچی کے لیے پہلی آفیشل پرواز روانہ ہوئی۔‘

انہوں نے بتایا تھا: ’کراچی کے ہوائی اڈے پر ہماری لینڈنگ اتنی ہموار تھی کہ کسی کو احساس ہی نہیں ہوا کہ طیارہ اتر گیا ہے۔ یہ امارات کا آغاز تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان