ایک دوست نے پبلک سروس کمیشن میں کسی ملازمت کے لیے چند ماہ قبل ٹیسٹ دیا اور خوش قسمتی سے پاس بھی کر لیا۔
وہ انٹرویو کی تیاری کے لیے روز صبح لائبریری کا رخ کرتا اور شام کو آخری طالب علم ہوتا جسے لائبریرین یاد دلاتا کہ بھائی لائبریری کے بند کرنے کا وقت ہوگیا ہے، اگر آپ اٹھنے کی زحمت کریں گے تو وہ اسے بند کرکے چھٹی کرسکے گا۔
یہ امیدوار اپنی کلاس میں کیمسٹری کا سب سے ہونہار طالب علم تھا۔ جس ملازمت کے لیے تحریری امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا وہ بھی کیمسٹری سے ہی متعلق تھا۔
مگر اسے معلوم تھا کہ انٹرویو کے لیے اسے جہاد اور غزوات کی تاریخ، ان میں شامل لوگوں کی تعداد، مقام، دونوں اطراف زندہ بچ جانے اور مارے جانے والوں کی تعداد رٹنا ہوگی کیونکہ یہی سب پوچھا جائے گا۔ سولہ سالہ تعلیمی میدان میں جو پڑھا سو پڑھا مگر یہ نہیں آتا تو فیل۔
اس سے بھی شاید زیادہ قابل حیرت بات یہ ہے کہ کسی سکیورٹی چیک پوسٹ پر تعینات ایک محافظ سے کہا جائے کہ ہر آنے جانے والے کی تلاشی اور کہاں سے آ رہے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ جیسے معمول کے سوالات کے علاوہ یہ بھی پوچھا جائے کہ ’چوتھا کلمہ بھی سناؤ۔‘
بلوچستان بھر خصوصا گوادر میں ہر چیک پوسٹ اہم ہے جہاں ہر وقت سخت چیکنگ جاری رہتی ہے مگر اس چیکنگ میں ایک استاد سے جو روزانہ شہر سے 30 کلومیٹر دور ڈیوٹی کے لیے جاتا ہے یہ پوچھا جائے کہ قائد اعظم کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ اگر اس کا نام بالاچ، بشام یا کچھ اور ہو تو یہ نام کیوں رکھا ہے؟ جیسے سوالات اگر تنگ نہیں کرتے تو حیران ضرور کرتے ہیں۔
بالکل اسی حیرانی کا سامنا مجھے اس وقت کرنا پڑا جب ایک محافظ نے میرے ایمان سے متعلق سوال کر ڈالا۔ اس نے پوچھ لیا کہ ’چوتھا کلمہ سناؤ‘ جو کہ بدقسمتی سے مجھے نہیں آتا تھا۔
میں نے صاف کہہ دیا کہ میں صرف پہلے کلمے پر گزارا کرتا ہوں۔ اس بیچ اس محافظ سے کافی دیر تک گفتگو چلتی رہی اور آخر کار ہنسی مذاق میں یہ طے پایا کہ واپسی پر جب میں لوٹوں گا تو چوتھا کلمہ مجھے یاد ہونا چاہیے۔
واپسی تقریبا کوئی دو گھنٹے بعد ہوئی مگر ان دو گھنٹوں میں، میں یہی سوچتا رہا کہ محافظ نے ’کلمہ سناؤ‘ کا مطالبہ کیا کیوں؟ مجھے یہ بہت ہی پریشان کن عمل محسوس ہوا۔
کیا میں اگلی دفعہ کہیں سے بھی گزروں تو اس سے قبل پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو کی طرح کئی کئی دن لائبریری میں رٹا لگانے کے بعد گزروں؟ اور جب تک تیاری مکمل نہیں ہوتی گھر سے ہی نہ نکلوں؟
لگتا ہے کچھ بالکل الگ ہو رہا ہے۔ جو کام کہیں اور کرنے کا ہے وہ کہیں اور سے کرایا جا رہا ہے۔
خیر ایک مرتبہ میں اپنے ایک سینئر دوست کے ساتھ پنجاب کے ایک ضلع بورے والا سے ٹکٹ لے کر بذریعہ بس کراچی جا رہا تھا۔ ہم نے ٹکٹ کیا اور بس کے انتظار میں ہو لیے جس نے لاہور سے آنا تھا۔ ان کا اپنا کوئی کوٹہ سسٹم تھا کہ کچھ سواریاں بورے والا میں اتریں گی اور ہم یہاں سے چڑھیں گے۔
بس آئی اور ہم اپنی نشستوں کی جانب گئے تو ایک نوجوان اپنی بوڑھی ماں یا گھر کی کسی بوڑھی عورت کے ساتھ پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔
ہم نے ٹکٹ دکھائے کہ یہ سیٹیں ہماری ہیں تو بوڑھی عورت نے درخواست کی کہ وہ تھوڑا آگے اترنے والی ہیں، بیمار ہیں اس لیے پیچھے بیٹھ نہیں سکتیں۔
ہم یک دم فرشتہ بن گئے اور پچھلی نشست پر، جسے ہمارے دوست سول ہسپتال کے بیڈ سے تشبیہ دیتے ہیں، بیٹھ گئے اور اپنی سیٹوں کے خالی ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ مگر وہ تھوڑا آگے تین گھنٹے پر محیط تھا۔ بہاولپور آ گیا جہاں بس نے تقریبا پندرہ منٹ کے لیے رکنا تھا۔ ہم اترے کچھ دوستوں سے ملے اور کھانا بھی کھایا۔
جب دوبارہ اپنی سیٹوں کی طرف آئے تو اس دفعہ دو آدمی، وہ بھی دبنگ سٹائل، جو بات کرنے اور سنے کے لیے تیار نہیں، انہی سیٹوں پر بیٹھے ملے۔
ہم نے ٹکٹ دکھائے کہ بابا یہ ہماری سیٹیں ہیں۔ ڈرائیور کے پاس گئے کہ ہماری سیٹیں؟ ڈرائیور تھا کہ بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ ٹکٹ پر درج شکایت کے نمبر پر کال کی ادھر سے جواب آیا کہ اپنا معاملہ خود سلجھائیں۔ دوبارہ وہی سول ہسپتال کا بیڈ جو شاید ایک پسلی کو دوسری پسلی سے ملانے کے لیے بنایا گیا تھا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔
اچانک سامنے موٹر وے پولیس کی گاڑیوں کو گزرتے دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ شکایت کرکے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ہیلپ لائن ڈائل کی۔ مثبت جواب ملا کہ آگے بس جس بھی مووی ریکارڈنگ پوائنٹ پر رکے وہاں بتا دیجیے گا، شکایت نوٹ کرلی گئی ہے۔
تقریباً آدھ گھنٹے بعد موٹروے پولیس چیک پوائنٹ آئی۔ ہم اترے اور اپنی شکایت دہرائی تو جوان نے بتایا کہ ہماری شکایت انہیں مل چکی ہے۔
ڈرائیور کو طلب کیا گیا اور اس کی ایسی کلاس ہوئی کہ چالان کی رقم کم اور بےعزتی کا پیکج زیادہ لگنے لگی۔ ہمیں ہماری سیٹیں ملیں۔ کوئی رات کے ساڑھے تین بجے پھر اچانک بس کو روکا گیا تو دو شخص اندر آئے اور ہم دونوں کا نام لے کر پکارا کہ دونوں نیچے اتریں.....جب مچھلی کو پانی سے نکال دیا جائے تو وہ اتنا نہیں لرزتی جتنا کہ ہم اس وقت کپکپا رہے تھے۔
نیچے آئے تو دیکھا موٹروے پولیس کے افسر جوانوں اور ڈرائیور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم سے پوچھا گیا کہ دوبارہ ہم سے ڈرائیور یا بس کے عملے نے بدتمیزی تو نہیں کی؟ بتایا گیا کہ اگر کریں تو ہمیں کراچی تک کہیں بھی دوبارہ اسی نمبر سے ہیلپ لائن کو کال کرنی ہوگی۔
یہ منظر دیکھ کر یقین مانیے بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ ہم پاکستان میں سفر کر رہے ہیں۔ فرض کریں اگر میرے ذہن میں یہ خوف ہوتا کہ اگر میں کال کروں گا تو مجھ سے کہیں چوتھا کلمہ پوچھا لیا جائے گا تو کیا میں کال کرتا؟ ہرگز نہیں۔
خیر اصل واقعے کی طرف واپس آتے ہیں جب دو گھنٹے بعد دوبارہ چیک پوسٹ پر پہنچا تو مجھے بد قسمتی سے چوتھا کلمہ یاد تو نہیں تھا مگر میں نے محافظ سے درخواست کی اگر چوتھے کلمے کی جگہ ’امنت باللہ‘ چلےگا تو وہ سنا سکتا ہوں۔ بس وہ سنا کر آگیا۔
میری اس تحریر کے جواب میں ایک شخص اسماعیل نور نے لکھا کہ ’جاوید جان! ہمیں بھی تقریبا 32 بار دوسرے، تیسرے یا چوتھے کلمے سے واسطہ پڑا ہے، لیکن یاد ابھی تک نہیں کیے۔ فی الحال ایسا کچھ ارادہ بھی نہیں ہے۔‘