طالبان حکام نے بدھ کو بتایا ہے کہ کابل میں ان کے فوجی کمانڈر حمداللہ مخلص ان جنگجوؤں شامل ہیں جو اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کے ساتھیوں نے منگل کو ہسپتال پر حملہ کرنے والے داعش کے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حمد اللہ مخلص سخت گیر موقف رکھنے والے حقانی نیٹ ورک کے رکن اور بدری سپیشل فورس کے اعلیٰ افسر تھے۔ حمد اللہ مخلص رواں برس اگست میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد مارے جانے والے طالبان کے سب سے سینیئر رہنما ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے منسلک طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ’جب انہیں اطلاع ملی کہ سردار داؤد خان ہسپتال پر حملہ ہوا ہے تو مولوی حمد اللہ مخلص جوکہ کابل کے کور کمانڈر تھے فوری طور پر جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوئے۔‘
حکام نے بتایا کہ ’ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ہنس دیے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہسپتال میں دو بدو لڑائی کے دوران شہید ہوگئے ہیں۔‘
گذشتہ روز کابل کے مرکزی فوجی ہسپتال پر طالبان کی سخت گیر حریف تنظیم داعش خراسان کی جانب سے خود کش حملہ اور فائرنگ کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
یہ حملہ ایک اس وقت ہوا تھا جب ایک خود کش حملہ آور نے ہسپتال کے داخلی راستے پر خود کو اڑا لیا۔ اس کے بعد مسلح حملہ آور ہسپتال میں داخل ہوگئے تھے۔
اس کے جواب میں کابل کے نئے حکمرانوں نے اپنی فورسز کو عمارت کی چھت پر اس ہیلی کاپٹر کی مدد سے تعینات کیا جو انہوں نے امریکی حمایت یافتہ افغانستان کی سابق حکومت سے قبضے میں لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’وہ منظر بڑے دہشت ناک تھے جب مریضوں اور ڈاکٹروں نے اپنے آپ کو ہسپتال کی بالائی منزل کے کمروں میں لاک کرنے کی کوشش کی اور اسی وقت فائرنگ شروع ہوگئی۔‘
ٹیلی گرام چینلز پر جاری کیے جانے والے بیان میں داعش خراسان نے کہا ہے کہ ’داعش کے پانچ جنگجوؤں نے بیک وقت اور منصوبے کے تحت حملے کیے تھے۔‘
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو کم بتاتے ہوئے کہا ہے کہ حملے کو 15 منٹوں کے اندر ناکام بنا دیا گیا تھا اور اس کا سہرا انہوں نے اپنی فورسز کے سر باندھا۔
طالبان کی میڈیا ٹیم کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ ’تمام حملہ آور مارے جا چکے ہیں۔ سب سے پہلے خود کش حملہ آور نے ہسپتال کے داخلی دروازے پر دھماکہ کیا جو موٹر سائیکل پر سوار تھا۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کابل میں ملٹری ہسپتال پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ اسی ہسپتال کو 2017 میں بھی نشانہ بنایا گیا تھا، جب حملہ آور میڈیکل اہلکاروں کے حلیے میں آئے تھے۔ اس حملے میں کم از کم 30 افراد مارے گئے تھے۔
افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے اب تک متعدد دھماکے ہو چکے ہیں، جن میں سے دو دھماکے شیعہ برادری کی مساجد پر ہوئے تھے۔ ان دونوں خودکش بم حملوں کی ذمہ داری بھی داعش خراسان نے قبول کی تھی۔