انٹیلیجنس معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے پینٹاگون کے ایک اعلی عہدیدار نے کانگریس کو بتایا ہے کہ داعش اگلے چھ ماہ تک امریکہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکتی ہے۔
امریکہ کے انڈرسیکریٹری دفاع برائے پالیسی کولن کال نے منگل کو سینیٹ کی آرمڈ سروسزکمیٹی کے سامنے حلفیہ بیان کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ داعش خراسان کو ’چھ سے 12 ماہ کے درمیان ایسی صلاحیت‘ حاصل کرتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔
دولت اسلامیہ خراسان صوبہ جسے ’داعش کے‘ کہا جاتا ہے، افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیم کا مشرقی دھڑا ہے۔
کال نے بتایا کہ یہ بات حتمی طور پر واضح نہیں کہ طالبان داعش سے موثر طریقے سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔’ہمارے اندازے کے مطابق طالبان اور داعش خراسان ایک دوسرے کے داعمی دشمن ہیں۔ اس لیے طالبان ان کے پیچھے جانے کے لیے انتہائی پرعزم ہیں۔ میرے خیال میں ان کی یہ صلاحیت جانچنے کی ٖضرورت ہے۔‘
امریکی عہدیدار نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں داعش ’چند ہزار فوجیوں کے گروپ‘ پر مشتمل ہے۔
یہ دہشتگرد تنظیم طالبان اور امریکہ دونوں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور 26 اگست کو کابل میں حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملوں کی ذمہ دار تھی جس میں کم از کم 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
یہ تنظیم افغانستان میں اسلام کے اقلیتی شیعہ فرقے پر بھی حملوں میں ملوث رہی ہے۔
دہشتگر تنظیم سے وابستہ خودکش بمباروں نے رواں ماہ شیعہ فرقے کی دو مساجد پر حملہ کیا جس میں 90 نمازی ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکہ نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران طالبان سے جنگ کی اور داعش اور القاعدہ دونوں پر حملہ کیا۔
کال نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ نے طالبان سے اپنے تعلقات کی وجہ سے ایک پیچیدہ مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا القاعدہ کو افغانستان سے باہر اور امریکہ کے خلاف حملے کرنے کی صلاحیت کو دوبارہ پیدا کرنے میں ’ایک یا دو سال‘ لگ سکتے ہیں۔
اس سے قبل ستمبر میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ 11 ستمبر 2001 کے مقابلے میں اب کم ہے، لیکن مزید کہا تھا کہ داعش یا القاعدہ نسبتاً کم وقت میں دوبارہ تشکیل پا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کال نے کہا ’ہم رابطوں کا سلسلہ بحال رکھنے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔‘
امریکہ اب مبینہ طور پر افغانستان پر ڈرون اڑانے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتا ہے۔
کال نے مزید کہا کہ امریکہ کا افغانستان کے کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے فوجیوں کی میزبانی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
قائم مقام افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی نے اس سے قبل کہا تھا کہ افغانستان دوسرے ممالک پر حملوں کا ذریعہ نہیں بنے گا حتی کہ طالبان حکومت نے دوسرے انتہا پسند گروہوں کو روکنے کے لیے امریکہ کے تعاون کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اس ماہ کے شروع میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا، ’ہم داعش سے آزادانہ طور پر نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
صدر جو بائیڈن نے اگست کے حملے کے بعد داعش خراسان کو نتائج سے خبردار کیا تھا۔
’داعش خراسان کو کہتے ہیں، ابھی ہمارا اور آپ کا معاملہ ختم نہیں ہوا۔‘
امریکی صدر نے مزید کہا ’وہ لوگ جو امریکہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، ہم آپ کا تعاقب کریں گے اور آپ کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘
© The Independent