کیا فیس بک آپ کو گندے (یا غیر مطلوبہ) اشتہار دکھاتا ہے؟ زندگی بھی فیس بک کے جیسی ہے لیکن پہلے اس کے چلنے کا نظام دیکھتے ہیں۔
ہدایات اور اصولوں کا وہ پیکج جس پہ فیس بک چلتا ہے اسے ایلگورتھم کہتے ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام وغیرہ پہ انگوٹھا چلاتے چلاتے جو کچھ آپ کے سامنے آ رہا ہے اس کے پیچھے ایک پورا نظام کام کرتا ہے۔ جو کچھ بھی آپ کی وال پہ ہے اس کا مقصد شاید آپ بھول چکے ہوں لیکن فیس بک کو بخوبی یاد ہے۔
آپ جو کچھ بھی پوسٹ کرتے ہیں، شیئر کرتے ہیں، دیکھتے ہیں اس کا پیچھے ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ جمع تفریق ہوتی ہے کہ آپ کتنا وقت کہاں گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد فیس بک طے کرتا ہے کہ آپ کو دکھانا کیا ہے اور چھپانا کیا ہے۔
فیس بک پیدائشی ایسا نہیں تھا۔ شروع شروع میں اس کے سارے اندازے لوگوں کے ’لائک‘ سے طے ہوتے تھے۔ جس پوسٹ کو جتنا زیادہ پسند کیا جاتا وہ اتنی ہی دوسروں کو نظر آنی شروع ہو جاتی۔ پھر فیس بک نے ایک اصول یہ رکھ لیا کہ جس پوسٹ پہ لوگ جتنا ٹائم زیادہ لگائیں گے، اسے اتنا ہی پروموٹ کیا جائے گا۔ تین چار سال پہلے ہوا کہ لائکس کی بجائے دل بنانے یا دوسرے ایموجیز پر پوسٹ کا مستقبل طے ہونے لگا۔ پھر فیس بک نے سوچا کہ جن لوگوں سے آپ زیادہ بات کرتے ہیں ان کی پوسٹس آپ کی وال پہ زیادہ دکھائی جائیں۔
اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیس بک پر تنقید شروع ہو گئی کہ لڑائی جھگڑے، پھڈے بازی والی اور غلط انفارمیشن والی پوسٹیں چلنے لگ گئی ہیں اور اچھے والا مال سارا انہی میں دب جاتا ہے۔ آخرکار فیس بک نے اعلان کر دیا کہ اب پوسٹ کی کوالٹی بھی ساتھ ہی چیک کی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی یہ تمام چیزیں فیس بک یا کسی بھی سوشل میڈیا کو چلانے والے بنیادی آٹومیٹک اصولوں میں شامل ہیں۔
اصل رولا ہی تب پڑا جب یہ ساری معلومات استعمال کرکے آپ کو اشتہار دکھائے جانے لگے۔ بڑی بڑی کمپنیاں چوکنی ہوگئیں، صارفین کے حقوق اور پرائیویسی کا سوال اٹھنے لگا لیکن دیسی صارف آج بھی سوچتا ہے کہ یار فیس بک گندے اور کبھی کبھی بے مقصد اشتہار دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ جو کچھ آپ سارا دن دیکھ رہے ہیں بھئی وہی سب آپ کو اشتہاروں میں بھی دکھایا جائے گا۔
یہ تو ہو گیا سوشل میڈیا کا معاملہ، زندگی بھی کچھ اَن کہے اصولوں پر چلتی ہے۔
آپ ایک کام کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں دوسرا قدم اٹھاتے ہیں، ان دونوں کے بعد جو حالات بنتے ہیں وہ آپ کو تیسرا قدم اٹھانے کی طرف لے جاتے ہیں اور یوں وقت آگے بڑھتا رہتا ہے۔
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے جیسے بندہ پھنس گیا ہے، جو کرنا ہے وہ نہیں ہو رہا اور جو نہیں کرنا بس وہی ہوئے جا رہا ہے۔ یہ زندگی کے ایلگورتھم میں پھنس جانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
کیا آپ کے بال بڑھنے میں آپ کی اپنی کوئی مرضی شامل ہے؟ سانس لینا، دل دھڑکنا، ناخن بڑھنا، آنکھ جھپکنا، جمائی لینا، تکلیف ہونے پہ ہاتھ جسم کے متاثرہ حصے تک لے جانا، یہ سب کام آٹومیٹک ہوتے ہیں لیکن یہ کس قدر بنیادی معاملات ہیں؟ یہ سب جسم کا ایلگورتھم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ایک ایلگورتھم حالات کا ہے۔ حالات وقت کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ عین اسی طرح جیسے فیس بک شروع ہوا تو 2004 میں کوئی خاص ایلگورتھم نہیں تھا، 2021 تک کوڈز اور اصولوں کا ایک جال بن گیا جو سب کچھ آٹوموڈ پہ چلا رہا ہے۔
پہلے زمانے کا انسان سادہ ہوتا تھا، ایک قدم اٹھانے کے بعد کیا ہونا ہے اس چیز کے دو تین ممکنات ہوا کرتے تھے۔ اب کے زمانے میں امکانات کا ایک پیچیدہ سیٹ اپ ہے جو آپ کے سامنے ہوتا ہے لیکن ۔۔۔ پہلے بھی آپ اس سیٹ اپ سے باہر نہیں جا سکتے تھے اور نہ اب جا سکتے ہیں۔
جیسے انسٹاگرام پہ آپ خالی ٹیکسٹ پوسٹ نہیں لکھ سکتے، ٹوئٹر پہ دو منٹ 19 سیکنڈ سے زیادہ ویڈیو نہیں اپ لوڈ ہو سکتی، ویسے ہی اگلے دو گھنٹے کے اندر آپ اپنی مطلوبہ خواہش پوری نہیں کرسکتے۔
آپ کے پاس استطاعت ہے، وسائل ہیں تو ٹھیک طریقہ معلوم نہیں ہو گا، وہ علم ہوا تو کوئی تیسری ٹیکنیکل مجبوری ہو گی، سب طریقے پتہ ہوں گے تو پیسہ نہیں ہو گا اور آپ لٹکے رہیں گے اور کئی برسوں تک لٹکیں گے۔ تو یہ جو لٹکنا ہے، دراصل یہ اسی سیٹ آف الگورتھم میں پھنس جانے کی وجہ سے ہے اور اس سیٹ میں آپ کو پھنسایا کس نے؟
آپ کے پیدائشی حالات نے!
جن بزرگوں کے یہاں آپ پیدا ہوئے، جس علاقے میں ہوئے، جو رنگ و نسل تھے، جو دستیاب وسائل تھے، جو زبان تھی، جو سائنسی ترقی تھی، ان سب چیزوں نے مل کر آپ کو باندھ دیا، محدود کر دیا، مزید جو آپ کے اوپر ایلگورتھم لگے وہ پہلے دن سے آج تک پیچیدہ ہی ہوتے رہے۔ کیوں؟ کیوں کہ آپ نے جو عمل کیے ان کا رد عمل بھی آپ کے ایلگورتھم میں شامل ہوتا گیا۔
تو بابا جی سارے دھندے سے نکلنے کا ہے کوئی طریقہ؟
بابے کے آج تک وہی ’غیر مطلوبہ‘ اشتہار بند نہیں ہوئے آپ طریقے پوچھتے ہیں؟