افغان طالبان نے اپنے 44 ارکان کو صوبائی گورنرز اور پولیس سربراہان سمیت کلیدی ذمہ داریوں کے لیے مقرر کیا ہے، جو طالبان کی حکمرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم ہے کیونکہ اس وقت جنگ زدہ ملک کو بڑھتے ہوئے سکیورٹی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے۔
ستمبر میں نئی افغان کابینہ کی تشکیل کے بعد بڑے پیمانے پر تقرریوں کا یہ پہلا دور ہے۔
طالبان نے اپنے ارکان کے نئے کرداروں کی فہرست اتوار کو جاری کی، جن میں قاری بریال کو کابل کا گورنر اور ولی جان حمزہ کو شہر کے پولیس سربراہ کی حیثیت سے نامزد کیا گیا ہے۔
کابل کی سکیورٹی کے انچارج سابق کمانڈر مولوی حمد اللہ مخلص اس ماہ افغانستان کے سب سے بڑے فوجی ہسپتال پر حملے میں مارے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان نے 15 اگست کو پورے ملک پر کنٹرول حاصل کیا تھا لیکن کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد امن اور سلامتی کو بحال کرنے کے اپنے وعدے پر انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
دوسری جانب داعش نے ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ معیشت اس وقت بحران میں ڈوبی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی مطالبات میں طالبان کو کہا گیا ہے کہ وہ اقلیتوں اور خواتین سمیت ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے دوسرے سیاسی فریقین کے ساتھ بات چیت کریں، واضح رہے کہ ابھی تک اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
طالبان نے ستمبر میں تحریک کے بانی ملا عمر کے ساتھی ملا حسن اخوند کو افغانستان کی نئی حکومت کا سربراہ نامزد کیا تھا جبکہ تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر کو نائب کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عالمی برادری سے طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے جبکہ انہوں نے بیرون ملک موجود افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔