انسانی حقوق کی ایک سرکردہ تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے صوبوں کے حکمران کابل میں موجود اپنے ہی رہنماؤں کی طرف سے بیان کردہ پالیسیوں سے کہیں زیادہ سخت قوانین نافذ کر رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ یہ ہدایت نامہ طالبان کی معاشرے میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی وزارت کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ یہ سرکاری ماضی میں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان کی 1996 سے 2001 تک پہلی حکومت کے دوران ’بدسلوکی کی ایک بدنام علامت‘ بن چکا تھا۔
محققین کا کہنا تھا کہ عمل بالعمروف و نہی عنل منکر کی وزارت اس عمارت میں قائم کی گئی ہے جہاں اس سے قبل خواتین کے امور کی وزارت کا دفتر تھا۔ طالبان نے حال ہی میں خواتین کی اس وزارت کو ختم کر دیا ہے۔
امریکی اور دیگر مغربی فوجیوں کے انخلا کے بعد اگست کے وسط میں طالبان اقتدار میں آئے تھے۔ پچھلی بار جب سخت گیر اسلام پسند گروپ نے ملک پر حکومت کی تو خواتین کو کام کرنے سے اور لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا اور اگر خواتین گھر سے نکلنا چاہیں تو انہیں کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ نکلنا پڑتا تھا۔
ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ ہم جنس پرستوں کو رسمی طور پر سنگسار کیا جاتا تھا۔
تحقیق کرنے والوں کے مطابق طالبان نے خواتین اور مردوں پر عوامی مقامات پر مار پیٹ اور حراست جیسی سخت پابندیاں نافذ کیں۔
وزارت کے اہلکاروں نے خواتین کو ’بے ہودہ‘ لباس پہننے، اپنی کلائیاں، ہاتھ یا ٹخنے دکھانے اور قریبی مرد رشتہ داروں کے ساتھ نہ ہونے پر سرعام مارا پیٹا۔ اہلکاروں نے داڑھی تراشنے پر مردوں کو بھی مارا پیٹا۔
تازہ قواعد و ضوابط بنیادی طور پر ’غلط سرگرمیوں‘ کے خلاف قواعد وضع کرتے ہیں۔ اس میں خواتین اور لڑکیوں کے رویے کے بارے میں سخت قوانین بھی شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے سرگرم کارکن کا کہنا ہے کہ ’یہ قواعد مذہبی رہنماؤں کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات سکھائیں کہ کنبے کا کون سا مرد خواتین اور بڑی عمر کی لڑکیوں کے لیے محرم بن سکتے ہیں اور یہ کہتا ہے کہ جب غیر محرم کا سامنا ہو تو خواتین کو پردہ کرنے کا حکم دیا جائے۔‘
’ایک اور شق میں کہا گیا ہے کہ عورتوں کو عوامی مقامات پر اور غیر محرم کی موجودگی میں بے حجاب اور بے نقاب رہنے سے منع کیا جائے۔‘
طالبان نے فروری 2021 میں ترمیم شدہ شمارہ شائع کرنے سے پہلے 2020 میں بھی اسے جاری کیا تھا جب وہ افغانستان کے بڑھتے ہوئے حصوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کر چکے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے کئی صوبوں میں اس کتابچے کو وزارت نے استعمال کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر حیدر بار نے کہا: ’طالبان نے دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن عہدیداروں کو ہدایت دینے والے قواعد صنفی اور LGBT کے امتیاز کو نافذ کرنے والی پالیسیوں اور خود مختاری اور آزادی اظہار پر سخت قدغنیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’طالبان کا عالمی نقطہ نظر اور بدسلوکی کے طریقے نسبتاً ایک جیسے رہے ہیں، جیسا کہ اس ظابطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ جن ممالک نے گذشتہ 20 سالوں سے افغانستان میں انسانی حقوق کو فروغ دینے میں گزارے انہیں طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔‘
اگرچہ افغانستان میں لڑکوں کے لیے سیکنڈری سکول دوبارہ کھل گئے ہیں، لیکن وہ اب بھی لڑکیوں کی اکثریت کے لیے بند ہیں۔
مس بار نے کہا: ’خواتین پر زیادہ تر ملازمتوں پر پابندی ہے۔ طالبان کی حکومت نے یہ کہہ کر توہین کی کہ خواتین اپنے ملازمت میں صرف اس صورت میں رہ سکتی ہیں جب اس عہدے کو کوئی مرد نہیں بھر سکتا ہو۔ جیسا کہ خواتین کے بیت الخلا میں ملازم ہونا۔
’خواتین زیادہ تر یونیورسٹیز سے باہر ہیں اور نئی پابندیوں کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب اور کیسے واپس جاسکتی ہیں۔ کئی خواتین اساتذہ کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ کابل کے ایک اہلکار کے مطابق کسی بھی خاتون کے ساتھ گھر سے نکلتے وقت ایک محرم، ایک مرد خاندان کے رکن کو محافظ کے طور پر لازمی قرار دینے کی پالیسی موجود نہیں ہے لیکن سڑکوں پر طالبان کے ارکان اب بھی کبھی کبھار اسے نافذ کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ خواتین کو ان کے بارے میں ہراساں بھی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان نے ’منظم طریقے سے‘ پرتشدد اور بدسلوکی کرنے والے مردوں سے فرار ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے پناہ گاہیں بند کر دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے کھیلوں کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان معمول کے مطابق انسانی حقوق کے تحفظات کو نظر انداز کرتے ہیں جو اس دستی قواعد میں درج ہیں۔ ہینڈ بک میں شادی، زنا اور ہم جنس تعلقات کے علاوہ جنسی تعلقات پر پابندی کی وضاحت کی گئی ہے۔
قواعد میں پارٹیوں، سینیما گھروں، جوا کھیلنے کے ساتھ ساتھ ’ٹیپ کیسٹ، ڈش اینٹینا، کمپیوٹر اور موبائل کے نامناسب استعمال پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
حقوق انسانی کے ادارے نے مزید کہا کہ ’طالبان نام نہاد ’وزارت‘ کے خلاف بدسلوکی کے ردعمل کو بھی معاف نہیں کرتے ہیں۔
یہ قواعد لوگوں کو ممنوعہ کاموں سے منع کرنے کے پانچ طریقے طے کرتے ہیں جس کی شروعات فرد کو تعلیم دینے اور اس سے آگے بڑھ کر اس کی رہنمائی، پھر ’جارحانہ، غصے میں اور خوفناک انداز میں‘ برائی کو روکنے، پھر ’جسمانی طور پر‘ عمل سے منع کرنا اور آخر میں اسے ضلعی اہلکار کو رپورٹ کرنا شامل ہیں۔
افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی بحران سے بھی دوچار ہے۔
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ہزاروں افراد جن میں سابق انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں سمیت خواتین، LGBT اور افراد شامل ہیں جو ملک سے فرار ہونے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی ایک بڑی تعداد پروازوں میں سوار ہونے کا انتظام نہیں کرسکتی۔
© The Independent