بندر پھرتیلا جانور ہے، چابک دستی میں اس کو مات دینا مشکل ہے۔ درختوں پر کودتا ہوا کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے۔ حملہ کرکے منہ چڑاتا ہوا واپس ایسے ہوتا ہے کہ آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
جال ڈالنے والے بتاتے ہیں کہ اس کے لیے جال کو کتر کر نکل جانا آسان ہے۔ مگر پھر بھی یہ اس وقت قابو میں آ جاتا ہے جب ایک پتلی گردن والے مرتبان میں اس کی پسند کا پھل پھینک کر اس کو لالچ دی جاتی ہے۔ پھل کو نکالنے کے لیے دونوں ہاتھ مرتبان کے اندر ڈالتا ہے اور پھر نکال نہیں پاتا کیوں کہ ہاتھ کھولے گا تو پھل گرے گا اور اگر پھل کو پکڑے رکھے تو پھنسا رہے گا۔
پاکستان میں سیاسی طاقت کا کھیل بندر پھنسانے والے مرتبان کی سی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ہر کسی نے ہاتھ گھسا کر اپنے آپ کو مقید کر دیا ہے۔
ماضی میں ایسے حالات غیرسیاسی قوتوں کے لیے آسان شکار کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جب سب پھنس جاتے تھے تو وہ اپنے پسندیدہ کو نکال کر دوسرے کو جکڑ بند رہنے دیتے اور یوں اصل طاقت اپنے پاس رکھتے۔ اس مرتبہ وہ بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں بہت کم ایسے ہوا ہے کہ جب حقیقی اور ظاہری طاقت رکھنے والی تمام قوتیں ہاتھ پاؤں مارتی ہوئی نظر آئیں۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کیا کرنا ہے، کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو گا۔
حکومت کا سیاسی عدم تحفظ اب ابل کر سامنے آ رہا ہے۔ پارلیمان کے اندر سے ممبران کا غائب ہو جانا، مشترکہ اجلاس کو وقتی طور پر موخر کرنا اور بار بار اونچی آواز میں خود کو پانچ سال پورا کرنے کی یقین دہانی کرانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کی صفیں اگر ٹوٹی نہیں ہیں تو مسلسل بے ترتیبی کا شکار یقیناً ہو چکی ہیں۔
چھوٹے اتحادی جن کو بہلا پھسلا کر ایک آدھ وزارت دے کر خوش کر دیا جاتا تھا اب مسلسل آنکھیں نکال رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، ق لیگ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سب اکھڑے اکھڑے سے ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی تبدیلی سے اگر اشارہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اکھڑی اکھڑی باتیں اکھاڑ پچھاڑ کی آمد کے جھونکوں کی طرح ہوتی ہیں۔ مسلسل ہونے لگیں تو طوفان یقینی ہوتا ہے۔
حکمراں پی ٹی آئی کے اپنے سیاست دان بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ مہنگائی کے سانپ نے ان کے حلقوں کو ایسے ڈسا ہے کہ ہر کوئی زہر اگلنے لگا ہے۔ یہ لوڈشیڈنگ تو ہے نہیں کہ لوگ ہلکا پھلکا احتجاج کر کے گزارہ کر لیں۔ گھر میں دانے ختم ہو گئے ہیں۔ نوکریوں سے نکالے گئے، سردی میں ٹھٹرے جسم ناتواں اور بےبس ہیں۔ تنگ آمد، بجنگ آمد کی سی کیفیت طاری ہو رہی ہے۔
ہر حلقے میں گھروں کے معاشی نظام کی بربادی کے قصے زیربحث ہیں۔ حکومت کے چند ایک خصوصی وزرا کے علاوہ، پچھلی حکومت کے بارے میں پی ٹی آئی کے اپنے رکن بھی بات نہیں کرتے۔ سب کو پتہ ہے کہ اپنے علاقوں میں پچھلی حکومتوں پر تنقید ایسی ہوائی فائرنگ ہے جو واپس اپنے گھر پر آ کر ہی گرتی ہے۔
اس جنجال سے بچنے کا راستہ انتخابات سے پہلے تو سامنے آنے کا نہیں۔ یہ مصیبت معیشت کے ڈھانچے، آئی ایم ایف کے پروگرام اور پالیسی کے نام پر ٹامک ٹوئیاں مارنے کا نتیجہ ہے۔ یہ چند ماہ کا قصہ نہیں، سالوں پر محیط مسئلہ ہے۔ ان حالات میں انتخابات ہوئے تو جیتنے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے جادو کے علاوہ کچھ کارگر نہ ہو گا۔
حکومتی حلقوں کو یہ اعتماد ضرور ہے کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ شاید دوسری کسی جماعت کے لیے فوری طاقت پلیٹ میں رکھ کر دیے جانے پر بھی قابل قبول نہ ہو۔ یہ وہ اعتماد ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ یہ وہ اعتماد ہے کہ تین سال سے خصوصی شفقت کا سلسلہ تھم تو گیا ہے لیکن شاید ہواؤں نے ایسا بھی رخ نہیں بدلا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رحمتیں ن اور پیپلز پارٹی کے کاشانوں پر ہونے لگیں۔
لہذا امید اور بےچینی ہر روز حکومتی نمائندگان کو مختلف اور متضاد بیانات دینے پر مجبور کرتی ہے۔ کبھی کہتے ہیں حکومت پانچ نہیں دس سال چلے گی، کبھی بیان دیتے ہیں کہ وزیراعظم کی ان ہاؤس تبدیلی قابل قبول نہیں ہے۔
حزب اختلاف اپنے اختلافات کو بھلا کر اپنے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو مکمل طور پر متحد کیے بغیر ایک نیا سیاسی اکٹھ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے پرانے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کی کڑواہٹ کو دور کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے موقعے کی مناسبت سے اپنے اعتراضات کو پرے رکھتے ہوئے ن لیگ کے ساتھ ایک غیررسمی الائنس ترتیب دیا ہے۔ احتجاج وغیرہ کے معاملات طے کرنا مقصود نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اگر اسمبلی کے اندر سے وزیراعظم کو چلتا کرنے کی بات آگے بڑھی تو اجتماعی سیاسی وسائل کیسے بروئے کار لائے جائیں گے۔
ان جماعتوں کو بھی پتہ ہے کہ یہ سب کچھ اشارے کے بغیر نہیں ہوگا اور وہ اشارے بہرحال ابھی واضح نہیں ہیں۔ ان جماعتوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تصویر صاف نظر آنے لگے گی جب 19 نومبر کا اہم دن گزر جائے گا۔ یہ ایک کمزور امید ہے۔
یہ واضح رہے کہ 2018 کے بعد طاقت صرف حکومت نے استعمال نہیں کی۔ ایک اشتراکی نظام معرض وجود میں لایا گیا تھا جو ابھی تک قائم ہے۔ باہمی ناچاکیاں اپنی جگہ، اس نظام میں پارٹنر تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا اپوزیشن بھی پھنسی ہوئی ہے، امید بھی رکھی ہے اور حتمی انتظام کرنے سے بھی قاصر ہے۔ مگر سب سے زیادہ مشکل میں اسٹیبلشمنٹ نظر آتی ہے۔
اپنی ذمہ داری قبول کیے بغیر پرانے فارمولے کو رد کرنا اور ایک نیا منجن بیچنا اب بہت مشکل ہے۔ موجودہ حالات کے جبر نے قوم کو یہ ضرور سمجھا دیا ہے کہ اس مشکل کا آغاز کب سے ہوا اور کیسے ان کو طوطا مینا کی کہانیاں سنا کر برسوں گمراہ کیا گیا۔ فرضی داستانوں کے مصنفین عموماً اپنے بنائے ہوئے کرداروں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس وقت خالق ہی تخلیق کی ہوئی مخلوق کی گرفت میں ہے۔ سب پھنسے ہوئے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔