جام کمال کے ہاتھ سے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ جا چکی ہے۔ اسلام آباد کا سیاسی ماحول ایک نوٹیفکیشن میں ایسا پھنس چکا ہے جس کے نتائج اور مضمرات دور رس ہوں گے۔ گذشتہ دو ہفتوں کی پیش رفت کے باعث اہم سیاسی تبدیلیوں کو ٹالنا مشکل نظر آنے لگا ہے۔
بلوچستان کے بعد اب پنجاب میں بھی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے اور پنجاب میں تبدیلی کا مطلب مرکز میں تبدیلی ہے۔ لیکن پنجاب میں جب تک ن لیگ نہیں چاہے گی کسی بھی عدم اعتماد کا کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ن لیگ کسی حکومتی سیٹ اپ کا حصہ نہیں بنے گی، چاہے بات پنجاب کی ہو یا پھر معاملہ وفاق کا۔
البتہ ن لیگ اس صورت میں تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا فیصلہ کر چکی ہے جب وہ خود یہ محسوس کرے کہ اس تمام معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار غیرجانبدار رہے گا اور اس حوالے سے اب تو کچھ لوگوں کو واضح اشارے مل رہے ہیں کہ نوٹیفیکیشن کے معاملے کے بعد اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک پیج ہوا میں معلق ہو چکا ہے۔
اسی پیش رفت کو بنیاد بنا کر ن لیگ میں یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ کیوں نہ اب پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ اس حوالے سے اگلے چند ہفتوں میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔ پنجاب میں سب اچھا نہیں ہے، بزدار کی مقبولیت اور گورننس پر سنجیدہ سوالات تو شروع دن سے موجود ہیں ہی لیکن انہیں چوہدری پرویز الہیٰ کی موجودگی میں ایسا سہارا حاصل ہے جو جب تک چاہیں گے بزدار حکومت چل سکتی ہے، لیکن جس دن مسلم لیگ ق کو ’حکمت عملی‘ تبدیل کرنے کے اشارے مل گئے، جام کمال کی طرح بزدار کا بھی گھر جانا ٹھہر جائے گا۔
12 اکتوبر کو انڈپینڈنٹ اردو کے لیے اپنی تحریر میں بڑے واضح الفاظ میں لکھ چکا ہوں کہ ’ایسی پیش رفت ہوئی ہے جس سے جام کمال کی حکومت کا جانا تقریباً ٹھہر چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ حلقے جنہوں نے جام کمال کو وزیراعلیٰ بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا یا تو کسی اور کو وزیراعلیٰ لانے یا نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘ اور گذشتہ روز یہ سب کچھ من وعن عملی طور پر ہو بھی گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب رند ہی روٹھ جائے تو جام کتنا عرصہ چھلک سکتا ہے؟
اب ملکی سیاسی ماحول میں ہونے والی اس پیشرفت کے بعد ن لیگ جو اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، وہ کیا راستہ اختیار کرے گی، بہت اہم ہوگا۔ اس وقت نواز شریف انتہائی پراعتماد ہیں اور پوزیشن آف سٹرنتھ سے سوچ اور بات کر رہے ہیں۔ حالیہ پیش رفت کے باعث وہ قائل ہو چکے ہیں کہ آئین اور ووٹ کی عزت کے لیے جو لڑائی انہوں نے تین سال پہلے شروع کی تھی وہ اس لڑائی میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ’انہیں یقین ہے کہ تبدیلی آ چکی ہے اور ایک صفحے میں جو دراڑ پڑ چکی ہے، اس کو بھرنا ناممکن ہے اور دراڑ اب مزید بڑھے گی۔‘
وہ یہ واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ یہ پہلی حکومت ہے کہ جسے زبردستی لایا گیا اور پلاننگ یہ تھی کہ اسے دس سال چلایا جائے، لیکن یہ تین سالوں میں ہی بظاہر بےنقاب ہو چکی اور اب یہ باب عنقریب بند ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف ایک سیاسی رائے یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ نواز شریف اب بیانیے کی بجائے انتخابی سیاست کو ترجیح دیں گے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ جب نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ بیانیے کی جنگ جیت چکے ہیں تو وہ اب اس صورت حال میں اس بیانیے میں انتخابی سیاست کو کیوں ترجیح دیں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرحال میرا اندازہ یہ ہے کہ اب نواز شریف بیانیے کی جنگ کے ساتھ ساتھ نہ صرف سیاسی چالیں چلیں گے بلکہ انتخابی سیاست پر حاوی ہونے کی تیاری بھی پکڑ چکے ہیں۔
نواز شریف کے ساتھ لندن میں ہونے والی تفصیلی ملاقات میں جب ان سے ایک سوال پوچھا گیا کہ ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کا ٹکٹ، آئندہ انتخابات میں کامیابی کی ضمانت ہوگا تو اس سوال کا انہوں نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ ’ن لیگ کا ٹکٹ نہیں بلکہ جو بھی آئندہ الیکشن اس بیانیے پر لڑے گا، صرف وہی جیتے گا۔‘
اب جبکہ عام انتخابات میں محض دو سال سے کم عرصہ رہ چکا ہے، تمام سیاسی جماعتیں خاص طور پر اپوزیشن جماعتیں الیکشن موڈ میں چلی گئی ہیں۔
خود نواز شریف بھی لندن میں بیٹھ کر گراس روٹ لیول پر اپنے کارکنان سے کئی کئی گھنٹے رابطے میں رہتے ہیں اور بھرپور سیاسی مہم نہ صرف چکا رہے ہیں بلکہ خود اسے لیڈ بھی کر رہے ہیں۔
اب ان کی واپسی کی باتیں بھی زور و شور سے ہو رہی ہیں۔ خود ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وطن واپسی کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیں اور اس حوالے سے ان کے کچھ بہت ہی قریبی ذرائع تو یہاں تک پُراعتماد ہیں کہ شاید نواز شریف اگلے ایک سے ڈیڑھ ماہ تک وطن واپس آجائیں گے۔
دسمبر کا سرد موسم نواز شریف کی واپسی کے بعد کتنا گرم ہوگا یہ آنے والے دو ہفتے واضح کر دیں گے۔
نوازشریف کی گفتگو کا محور بڑی حد تک آئین کے تحت ملک چلانے پر ہی رہا اور ان کی زیادہ تر باتوں سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ جیسے ان کے لہجے میں مریم نواز بول رہی تھیں۔
جس سے میرے لیے یہ اندازہ لگانا اب آسان ہے کہ مریم نواز جو کچھ بول رہی ہیں اور کر رہی ہیں، وہی نواز شریف کی سیاست اور فیصلے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔