ماہ رمضان میں امریکی شہریوں کے لیے ویڈیو کالنگ ایپ ’سکائپ‘ غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں کے ساتھ رابطے کا اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ افطار کے موقعے پر سکائپ امریکیوں کو دنیا کے ان حصوں کے ساتھ جوڑ دیتا ہے جہاں تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔ سکائپ پر ہونے والے ان رابطوں کا مقصد دوستی کا فروغ ہے۔
غزہ کی 16 سالہ نوار دیاب کسی بھی نوجوان لڑکی کی طرح بہت پرجوش ہیں۔ ہماری گفتگو کے دوران وہ تیزی تیزی سے موضوع تبدیل کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تین جنگوں میں بچ نکلنے سے لے کر موسیقی کا آلہ چیلو سیکھنے پر بات کرتی ہیں۔
ہم ان کے گھر میں فرش پر بیٹھے ایک خستہ حال چیلو کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موسیقی کا یہ آلہ نوار دیاب کے لیے بہت چھوٹا ہے۔ اس کی تاریں بھی ڈھیلی پڑ گئی ہیں۔
نوار پر دباو کافی ہے۔ وہ انقریب ایک امریکی مہمان کو چیلو بجا کر دکھائیں گی جو ان کے خاندان سے روزہ افطار کرنے کے دوران سکائپ پر رابطہ قائم کریں گے۔
امریکی اور غزہ کے محصور شہریوں کے درمیان ایسے رابطے کو ممکن بنایا ہے غزہ یوتھ کمیٹی نے جو فلسطینی شہریوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ کمیٹی کا مقصد امریکہ میں رہنے والے لوگوں کو غزہ کے ان خاندانوں سے سکائپ پر ملاقات کا موقع فراہم کرنا ہے جو 12 برس سے جاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے علاقے سے باہر نہیں نکل سکتے۔
اس سال ماہ رمضان میں افطار کے دوران غزہ یوتھ کمیٹی نے سکائپ پر رابطے کے 25 مختلف سیشنز کا اہتمام کیا۔ اس دوران زمین پر سب سے زیادہ ناقابل رسائی مقامات پر مقیم خاندانوں کا امریکی ریاست ونکونسن اور ٹیکساس کے لوگوں کے ساتھ سکائپ پر رابطہ کرایا گیا۔
امریکی شہریوں سے سکائپ پر ہونے والے ان رابطوں میں الیکٹرانکس کے فلسطینی گریجویٹس، تاجروں، تیراکی کے کوچز، مزاحیہ اداکاروں اور سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین نے امریکی سافٹ وئیر ماہرین، طلبا، سماجی تنظیموں کے افراد اور ماہرین تعلیم سے بات چیت کی۔
نوار کے خاندان سے رابطے میں ہوں گے ڈیلاس سے تعلق رکھنے والے میچل جو 21 سال کے ہیں اور تاریخ کے طالب علم ہیں۔
نوار دیاب کہتی ہیں کہ وہ میچل کو دکھانا چاہتی ہیں کہ فلسطینی جنگجو اور دہشتگرد نہیں ہیں۔ اس دوران جب ان سے چیلو پر ایک مکمل سر بجا تو وہ خوشی سے چلا اٹھیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ انہیں سیلو سیکھنے کا بے حد شوق ہے لیکن غزہ میں اسے سکھانے والا کوئی نہیں ملتا۔ انہیں امید ہے کہ مچیل ان کی چیلو سیکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
غزہ میں مقیم شہریوں کے اعتبار سے دیاب کا خاندان نسبتاً خوشحال ہے۔ 25 میل طویل غزہ کی پٹی عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں کے مکینوں کی تعداد 19 لاکھ ہے جن میں آدھے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
نوار دیاب کو شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک گروپ نے چیلو دیا تھا۔ اس مقصد کے لیے گروپ نے اسرائیلی حکام سے اجازت لی تھی۔ اسرائیلی حکام اکثر اس بنیاد پر غزہ شہر کے لیے سامان کی ترسیل بند کر دیتے ہیں کہ وہاں کے عسکریت پسند سامان میں موجود اشیا کے مختلف حصوں کو جوڑ کر ہتھیار تیار کرسکتے ہیں۔
نوار کے لیے یہ چیلو قطعی بے کار ہے۔ غزہ میں چیلو کی آخری ٹیچر رومانیہ کی ایک خاتون تھیں جنہوں نے گذشتہ برس علاقہ چھوڑ دیا۔
رمضان کے دوران غزہ کے مکینوں کی سکائپ پر بات چیت کا آئیڈیا امن کے سرگرم کارکن 37 سالہ رامی امان نے متعارف کرایا تھا۔ انہوں نے 2010 میں غزہ یوتھ کمیٹی قائم کی اور غزہ کے محدود وسائل میں شامل انٹرنیٹ کی سہولت سے زیادہ زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے دنیا سے رابطے کے لیے استعمال کیا۔
غزہ یوتھ کمیٹی میں مسلمان اور مسیحی ارکان شامل ہیں جبکہ اسرائیل سمیت دنیا بھر میں یہودی بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے سرگرم رامی امان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ رمضان میں سکائپ پر رابطے کے لیے اس سال انہوں نے امریکہ کا انتخاب کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو اکثر اوقات فلسطین مخالف سمجھا جاتا ہے جن سے امریکی شہریوں کی فلسطینی عوام کے بارے میں رائے متاثر ہوتی ہے۔
گذشتہ ماہ امان نے غزہ کے شہریوں کا مغربی کنارے کے لوگوں کے ساتھ سکائپ پر رابطہ کرایا۔ اس اقدام کا مقصد دونوں علاقوں کے درمیان حائل سیاسی خلیج کی تلخی کم کرنا تھا۔ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے دو ایسی سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام ہیں جو ایک دوسرے کی حریف ہیں۔
رامی امان فلسطینی شہریوں کا سرحد پار اسرائیلی شہریوں کے ساتھ بھی سکائپ پر رابطہ کرا چکے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہوتے بتاتے ہیں کہ ابتدا میں صرف ایک ہی راستہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بات کریں اور ایک دوسرے کو پہچانیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نوجوانوں کو سکھانا چاہتے ہیں کہ کسی تشدد کے بغیر بیرونی دنیا سے رابطہ کیسے کیا جائے۔
امان کے مطابق نیوجرسی میں مقیم ایک امریکی سافٹ ویئر ڈویلپر نے غزہ کے الیکٹرانکس کے طلبا کے ساتھ رمضان میں سکائپ پر رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے فلسطینی نوجوانوں کو تربیت کی پیشکش کی۔ اس مقصد کے لیے منتخب کیے گئے 20 فلسطینی نوجوانوں کو تربیت کے ساتھ ساتھ ماہانہ 550 ڈالر بھی ملیں گے۔
دیاب خاندان کے گھر میں میچل سے بات کے دوران نوار اپنے خاندان کے لیے ترجمہ کررہی ہیں۔ وہ امریکی لہجے میں روانی سے انگریزی بولتی ہیں حالانکہ وہ غزہ کی پٹی سے کبھی باہر نہیں گئیں۔
نوار کی والدہ 43 سالہ ویسام یاسین ٹی وی کی صحافی ہیں۔ ان کے والد 46 سالہ نبیل دیاب مزاحیہ اداکار ہیں۔ وہ ایک تھیئٹر بنانا چاہتے ہیں جہاں غزہ کے جدوجہد میں الجھے اور مایوسی کا شکار نوجوانوں کو تفریح فراہم کی جا سکے۔
نوار اور ان کے والدین میچل سے سکائپ پر ملنے کے لیے بےتاب ہیں اور انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ غزہ کی زندگی حقیقت میں کیسی ہے۔
میچل جب کمپیوٹر سکرین پر ابھرتے ہیں تو اس وقت دیاب خاندان کے ارکان میں گھر میں بنی میٹھی چیزیں تقسیم ہو رہی ہوتی ہیں۔
امریکی طالب علم میچل کے مطابق سکائپ پررابطے کا سب سے اہم حصہ دو ایسی برادریوں کے درمیان فوری بات چیت ہے جن کو اکثر ایک دوسرے پرعدم اعتماد کی تعلیم دی جاتی ہے۔
’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات چیت میں میچل کہتے ہیں کہ وہ ایک یہودی طالب علم ہیں جو ڈیلاس میں یہودی برادری کے درمیان پلے بڑھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایک صہیونی یہودی حلقے سے باہر کسی ماحول سے واسطہ نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ صرف اپنی برادری کے لوگوں سے بات کرنے کا مطلب ان لوگوں سے متعلق گھسے پٹے خیالات تک محدود ہونا ہے جن سے آپ کا کھبی رابطہ نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں یہ خیالات بے حد مشکوک ہوجاتے ہیں۔
میچل کا مزید کہنا ہے ان کے خیال میں کہ فلسطینی شہریوں سے متعلق صرف پڑھنے کی بجائے ان کی زندگی کے بارے میں جاننا اور سکائپ پر ذاتی طور پر ان سے بات کرنا زیادہ اہم ہے۔
امریکی طالب علم میچل نے تفصیلی بات چیت کے بعد نبیل دیاب کو ’بریکنگ والز‘ کے نام سے ایک امن پروگرام کے بارے میں بتایا ہے جو جوان لوگوں کو فنون لطیفہ کے ذریعے جوڑتا ہے۔ اس اقدام کا مقصد 3 بچوں کے والد مسٹردیاب کو ان کے مزاحیہ تھیئٹرکے منصوبے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
میچل نے نوار دیاب کو سکائپ پر چیلو سکھانے والا ٹیچر تلاش کرکے کے دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
لیپ ٹاپ پر نظر اٹھاتے ہوئے نبیل دیاب نے کہا: ’ہم سب کے پاس اپنا پیغام ہے جسے وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ غزہ میں مقیم چند ہمارے جیسے لوگوں کے لیے ایسا کرنا کہیں مشکل ہے۔‘