میں امریکہ کے ایک ایسے فوجی پناہ گزین کیمپ میں ہوں جو پائن اور چنار کے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔
نہ معلوم اس جنگل کے اس پار شہر کے کیا معمولات ہوں مگر یہاں موسم میری طرح سہما ہوا ہے۔ ہجرت کے خوف سے درختوں کے پتے زرد ہونے لگے ہیں۔ جدائی جان لیوا اذیت ہے۔ جب اونچے لمبے ہم قد درخت ہوا کے زور سے سرسراتے ہیں تو ایسے لگتا ہے ہجر کا کوئی قدیم گیت گا رہے ہوں۔ ہم ایک دوسرے کا درد سمجھنے لگتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں یہ سب تقدیر کا کھیل ہے کہ حالات کی ہوا ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی۔ پر مجھے لگتا ہے جب حالات ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو ہم خود کو مجرم ٹھہرانے کے بجائے چپ کرکے سب کچھ تقدیر کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور پھر اسی کو کوستے رہتے ہیں۔
میرے سامنے چمن، جس پہ کبھی امریکی فوجی جنگی مشقیں کیا کرتے ہوں گے اب کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ کہیں بچے فٹ بال کھیل رہے ہیں تو کہیں نوجوان والی بال۔ یہاں ایک کرکٹ ٹیم بھی بن چکی ہے۔ لکڑی کا تختہ، بیٹ ہے اور سیمنٹ والی ہموار زمین ان کی پچ بن چکی ہے۔
دنیا جہاں سے بے خبر بچے دن سے لے کر شام گئے تک یہیں آس پاس کھیلتے رہتے ہیں۔ خدا اور بچے دونوں ہی بے نیاز ہوتے ہیں۔
ان بچوں کو خبر ہی نہیں ان کے والدین انہیں رات کے اندھیرے میں گھروں سے گھسیٹ کر کیوں یہاں تک کھینچ لائے۔ شاید انہیں بڑے ہو کر بھی اندازہ نہ ہو کہ ان کے والدین جواری تھے جنہوں نے اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے کتنا بڑا جوا کھیلا تھا۔
سب کچھ داؤ پہ لگا کر زندگیاں بچا لائے اس مستقبل کے لیے جو کسی نے دیکھا بھی نہیں۔ لان میں بیٹھے خاندان مجھے ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب ہم کابل کے مشہور ’باغِ بابر‘ پکنک منانے جایا کرتے تھے۔ چھوٹے بڑے خاندان ٹولیوں کی صورت دسترخوان سجائے کھانے اور خوش گپیوں میں مشغول ہوتے۔ بچے اردگرد کھیلا کرتے تھے۔ وہ بھی کیا خوش کن زمانے تھے۔ اب سب اپنے اپنے موبائل سلیپر میں لیٹے انہی دنوں کو یاد کرتے ہیں اور جب دل تنگ ہونے لگتا ہے تو چمن میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
جب چمن میں خزاں کی ہوائیں تیز اور ناقابل برداشت حد تک ٹھنڈی ہو جاتی ہیں تو لوگ دسترخوان سمیٹ کر واپس اپنے موبائل سلیپر میں آ جاتے ہیں۔ یہاں کنٹینرز کی بستی آباد ہو چکی ہے۔ ناہموار گلیوں میں سارا دن بچوں بڑوں کی آمدورفت لگی رہتی ہے۔
مجھے امریکہ میں رہتے ہوئے بھی ایسے لگتا ہے جیسے میں افغانستان میں ہوں۔ ایک گلی سے گزروں تو دری سنائی دیتی ہے جیسے میں کابل کے کسی محلے میں سے گزر رہی ہوں۔ دوسری گلی میں پشتو کا اطرافی لہجہ سن کر احساس ہوتا ہے میں خوست میں ہوں۔ کوئی گلی غزنی کا نقشہ کھینچتی ہے تو کوئی جلال آباد کا۔ وہی لباس، وہی بول چال وہی رہن سہن۔
پر ایک دن ہم سب اس پناہ گزین کیمپ سے بھی ہجرت کر جائیں گے۔ الگ الگ ریاستوں اور اپنے اپنے گھروں میں پھر شاید ہم ایک دوسرے کی شکلیں تک بھول جائیں پر یہ وقت کبھی نہیں بھولیں گے۔
ناگہانی صورت حال کے لیے بنائے گئے موبائل سلیپر میں شاید پہلی بار جنگ زدہ مہاجرین کی آباد کاری کی گئی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ آگ، طوفان، زلزلے، سیلاب، ٹورنیڈو وغیرہ جیسے حالات میں استعمال ہوتے تھے۔
موبائل سلیپر میں کوئی کھڑکی نہیں صرف ایک دروازہ ہے۔ جب دروازہ بند ہوتا ہے تو مجھے کابل کے مکان والی وہ کشادہ کھڑکی یاد آتی ہے جس کے قریب بیٹھ کر میں لکھا کرتی تھی۔ جہاں سے چاند میرے کمرے میں چپکے سے جھانکا کرتا اور خزاں کے موسم میں ہوا پتے اڑاتی میری کھڑکی میں چھوڑ جاتی تھی جنہیں میں اپنی ڈائری میں رکھ دیا کرتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ سبھی پرندے جو کھڑکی کے آس پاس چہچہایا کرتے تھے۔ مجھے اس گلی سے گزرتا ہر شخص یاد آتا ہے جنہیں میں کھڑکی سے جھانک کر دیکھا کرتی تھی۔ وہ کھڑکی میرے لکھنے کا حسین گوشہ تھی۔ بوقت ہجرت جب میں گھر کی ساری کھڑکیاں بند کر رہی تھی تو میرے ہاتھ لرز رہے تھے اور آنکھیں آبشار کی مانند بہہ رہی تھیں۔
تب میرے دل سے بس یہی دعا نکلی کہ خدا کرے میں دوبارہ ان کھڑکیوں کو آ کر اپنے ہاتھوں سے کھولوں۔ میں نے ہجرت کا کبھی نہیں سوچا تھا مگر مجھے بیٹی کے خواب اور سکول کا بستہ یہاں کھینچ لائے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بستہ ہمیشہ کے لیے بستہ ہو جائے۔
اب جب میں سنتی ہوں کہ کابل میں لڑکیوں کو چھٹی کلاس سے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے تو مجھے ملالہ یوسفزئی یاد آتی ہے۔ افسوس میرے وطن کی ہر لڑکی ملالہ یوسفزئی بن چکی ہے۔
پھر میں شکر کرتی ہوں کہ ہم بروقت وہاں سے نکل آئے۔ یہاں کم از کم کوئی ہمارے ایمان کو داڑھی اور سکارف سے نہیں ناپے گا اور نہ ہی میری بیٹی کی آنکھیں اور سکول بیگ سوالیہ نشان بنیں گے۔