کنٹونمنٹ اراضی تجارتی کام میں استعمال نہیں ہوگی: سیکریٹری دفاع

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں کیا دفاعی مقاصد یہ رہ گئے ہیں؟‘

پاکستانی نیم فوجی اہلکار شہر کراچی میں واقع سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری کی عمارت کی حفاظت پر آٹھ مارچ 2013 کو معمور دکھائی دے رہےہیں (تصویر: اے ایف پی)

سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس نے ملٹری لینڈ کمرشل کیس میں سیکریٹری دفاع پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ’ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں کیا دفاعی مقاصد یہ رہ گئے ہیں؟‘

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تین روزہ سماعت کے آخری روز ملٹری لینڈ کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کے کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی۔

عدالت نے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ میاں حلال حسین سے استفسار کیا کہ ’سیکریٹری صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ سینیما اور رہائشی پروجیکٹس چلارہے ہیں زمین تزویراتی اور دفاعی کام کے لیے دی گئی تھی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں کیا دفاعی مقاصد یہ رہ گئے ہیں؟‘

جس پر سکریٹری دفاع نے جواب دیا کہ ’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔‘

چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے تحریری رپورٹ کا استفسار کیا جس پر سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ تحریری رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت دی جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’بتایا جائے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کی کیا پالیسی ہے؟ عسکری فور دیکھیں بڑے بڑے اشتہار لگا دیئے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ مسلسل زمینوں کی حیثیت تبدیل کر رہا ہے۔ یہ سب دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہیں؟‘

چیف جسٹس نے سماعت 30 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع کو تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط کے ساتھ رپورٹ اور تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کی پالیسی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسی حوالے سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تین روزہ سماعت کے پہلے روز 24 نومبر کو ڈائریکٹر ملٹری لینڈ کو بھی طلب کیا تھا اور ان سے ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں تجارتی و رہائشی عمارتیں بننانے کے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ ’ڈی ایچ اے فیز ون میں کیا بنا رہے ہیں آپ لوگ؟ کوئی بلڈنگ بن رہی ہے؟ فیصل کنٹونمنٹ میں کیا ہورہا ہے؟ کمرشل پلازہ بنادیا، شادی ہالز بنا دیے اور سینیما بھی۔ دفاعی اداروں کا یہ کام نہیں ہے۔ آپ نے منافع بخش کام شروع کردیا ہے۔‘

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’نیوپلیکس سینیما کے ساتھ ایک دیوار ہے جہاں کمرشل سرگرمیاں ہورہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نیوی والے بھی یہی کررہے ہیں، گزری میں ہاؤسنگ سوسائٹی بنادی، اسٹریٹیجک زمینوں پر کمرشل سرگرمیاں کررہے ہیں، کل مسرور بیس پر بھی سوسائٹی بنا دیں گے، ملیر کینٹ بھی بانٹ دیا اور باقی بھی بانٹ دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے ڈائریکٹر ملٹری لینڈ کو ان معاملات پر غور کرنے اور اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل اور تمام کنٹونمنٹس کے سربراہان کو نوٹسز جاری کردیے۔

کراچی رجسٹری میں سپریم کورٹ کی تین روزہ سماعت کے دوران کراچی میں سرکاری زمین پر کمرشل اور رہائشی غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے حوالے سے بھی سماعت کی۔

پہلے روز 24 نومبر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی نوید شیخ کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا اور کراچی کی اہم سڑکوں اور شاہراہوں شاہراہ فیصل اور شاہراہ قائدین کے سنگم پر بنی 11 منزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو فوری طور پر گرانے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے اس معاملے پر ریمارکس دیے کہ ’سارے شہر کی مشینری لے کر جاؤ اور نسلہ ٹاور کو گراؤ۔‘

جس پر کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا تھا کہ انہوں نے نسلہ ٹاور پر آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ عمارت کی دسویں اور گیارہویں منزل کو گرانے کا کام جاری ہے۔

تاہم اسی روز کمشنر کراچی زیادہ عملے اور مشینری کے ساتھ نسلہ ٹاور گئے اور عدالت کے حکم پر عمارت کو گرانے کا کام تیز دیا۔

تاہم آج متعدد بلڈرز نے نسلہ ٹاور کے باہر شدید نعرے بازی کی اور احتجاج کیا۔ جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی۔

مظاہرین میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے عہدیدار شریک تھے۔

 

اس موقعے پر آباد کے سابق چئیرمین محمد حسین بخشی کا کہنا تھا کہ ’ہم پر امن مظاہرہ کرنے آئے تھے مگر ہمیں زبردستی لاٹھیاں اورڈنڈے مارے گئے۔ کراچی میں آج سے ایک ہزار ارب کی سرمایہ کاری کے پروجیکٹ بند کردیے ہیں۔ ہمارے لوگوں کومارا جا رہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ کہاں ہیں؟ جن اداروں سے این او سی لینا ہے ان سے لینے کے باوجود معاملے کو کیوں متنازع بنایا جا رہا ہے؟‘

تاہم آباد کے سینئیر وائس چئیرمین کا کہنا تھا کہ ’ہم کاروباری لوگ اس حکومت کو اربوں روپے کا ٹیکس دیتے ہیں مگر آج انہوں نے ہم پر تشدد کیا ہے۔ کراچی کی انڈسٹریز اس حکومت کو 67 فیصد ٹیکس دیتی ہیں۔ مگر آج ہم پر امن احتجان کرنے آئے تو ہمارے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان