افغانستان کے ’آئس مین‘ کے نام سے مشہور افغان ایتھلیٹ، صوبہ غور میں ان کے سپورٹس کلب کو سکیورٹی خطرات کی وجہ سے بند کیے جانے کے بعد ملک چھوڑ گئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان میں فری سٹائل فٹ بال کے بانی اور چیمپیئن فاروقی نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں سکیورٹی اور کھیلوں کی صورت حال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔
’میں نے اپنا کھیل جاری رکھنے اور اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس دوران نامعلوم اور مشکوک افراد نے مجھے کئی بار دھمکیاں دیں اور بالآخر میں اپنی جان بچانے اور کھیلوں کی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔‘
اس افغان کھلاڑی نے شمالی افغانستان کے برف پوش پہاڑوں کے ٹھنڈے پانیوں میں سخت اور تھکا دینے والے موسم سرما کی تربیت کے بعد ’آئس مین‘ کا خطاب اپنے نام کیا تھا۔ وہ سینیما کے میدان میں داخل ہونے والے تھے اور ایک ترک سیریز میں اداکاری کرنے جا رہے تھے۔
’میں نے ابھی ایک فلم میں اداکاری شروع کی تھی اور ایک سیریز کے لیے ترکی کی ایک فلم کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن افغانستان پر طالبان کے قبضے سے میرے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ اب میں امیگریشن کے ذریعے اپنے خوابوں کا تعاقب کرنا چاہتا ہوں۔‘
ایک سال قبل انڈپینڈنٹ فارسی کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان کے ’برفانی آدمی‘ نے کہا تھا کہ سردی میں کھیلوں کی سخت اور تھکا دینے والی تربیت کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ افغانستان کے لوگ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور امن کے لیے کوشاں ہیں۔
اس وقت فاروقی کی خواہش تھی کہ افغانستان میں امن ہو اور جنگ میں فریقین کے درمیان معاہدہ ہو جائے تاکہ افغان دوبارہ ہجرت پر مجبور نہ ہوں، لیکن اب وہ خود بھی اپنا ملک اور اپنی امنگوں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جو لوگ ملک چھوڑتے ہیں وہ افغانستان کے ٹیلنٹ اور اشرافیہ ہیں۔‘
مجیب نادر، ایک اور پہلوان نے جنہوں نے طالبان کے قبضے کے بعد ملک چھوڑ دیا تھا دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ان کے جانے سے بلاشبہ افغانستان کے اندر نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، لیکن اشرافیہ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑے گا کیونکہ وہ یہاں اپنے مقاصد اور خواب حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کھیلوں اور آرٹ کی سرگرمیاں خوف اور شدید کساد بازاری کی وجہ سے ٹھنڈی پڑ گئیں ہیں۔ اگرچہ طالبان نے صرف خواتین کے لیے کھیلوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور مردوں کے لیے کوئی خاص حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے، لیکن افغانستان کے مختلف حصوں میں نامعلوم گروہوں کی جانب سے عدم تحفظ، اغوا، تشدد اور قتل نے کھیلوں کی سرگرمیوں کو کھلاڑیوں کے لیے خطرناک بنا دیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں معاشی بحران نے لوگوں کے لیے سپورٹس کلب استعمال کرنے کی استطاعت ناممکن بنا دی ہے اور عوام کی پریشانی صرف ایک روٹی کے حصول تک محدود ہے۔