خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے ایک دور افتادہ گاؤں کی ہنس مکھ شربت گلہ پچھلے کئی سالوں سے گاؤں کے بچوں کی عید کی خوشیوں کو چار چاند لگا رہی ہیں۔
دوستوں میں شربتے کے نام سے مشہور یہ نوجوان خاتون میڈیا کی نظروں سے دور ہر سال گاؤں کے بچوں کے لیے نا صرف خصوصی تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں بلکہ پشاور اور بیرون ملک سے آئے تحائف بھی دیتی ہیں۔
یہی نہیں وہ اکثر و بیشتر علاقے کے سرکاری سکولوں میں رضاکارانہ کلاس لیتے ہوئے طلبا کی حوصلہ افزائی کے لیے بزم ادب کے مقابلے کرواتی ہیں۔
اس کے علاوہ ہر رمضان کے مہینے میں غریب اور نادار لوگوں میں راشن بھی تقسیم کرتی ہیں۔
زمین دار خاندان سے تعلق رکھنے والی شربت گلہ نے ان سارے کاموں کی ابتدا اپنے جیب خرچ سے کی تھی لیکن جب ان کے قریبی دوستوں کوعلم ہوا تو انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔
ان کی رضاکارانہ مہم میں زیادہ تر طالب علم شامل ہیں جو اپنے جیب خرچ سے غریب بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شربت گلہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں واضح کیا کہ ان کی نہ تو کوئی این جی او ہے اور نہ وہ ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی مہم کو میڈیا سے بھی دور رکھا ہوا ہے۔
’پہلی دفعہ ایسا ہے جب میں کسی کو انٹرویو دے رہی ہوں یہ سوچ کر کہ اس سے ہمارے معاشرے میں مثبت رجحان پیدا ہوگا اور ممکن ہے دوسرے لوگ متاثر ہو کر اپنے ارد گرد کی خبر لینا شروع کریں اور تعمیری کاموں میں حصہ لیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’جرمنی میں میری ایک دوست بھی اکثر بچوں کے لیے دلچسپ تحائف اور رقم بجھواتی رہتی ہیں جو ان کے علاوہ ان کے جرمن، ترک اور دیگر دوستوں کے مشترکہ تحائف ہوتے ہیں۔‘
شربت گلہ کے مطابق، جب صوبے میں دہشت گردی کے واقعات پیش آ رہے تھے تو کچھ بچوں نے جہاد پر جانے کا ذکر کیا تھا۔
ماضی میں چونکہ دہشت گردی کے واقعات میں بچوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے لہذا انہیں ڈر تھا کہ گاؤں کے سادہ لوح والدین اپنے بچوں کی صحیح رہنمائی نہیں کر سکیں گے۔
’میں تفریح تفریح میں بچوں کو ذاتی حفظان صحت سے لے کر معاشرتی آداب اور دیگر اہم موضوعات پر سمجھاتی ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات بھی دیتی ہوں تاکہ وہ اپنا سبق یاد رکھیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اچھے معیار کا سامان لے کر دوں تاکہ وہ ان کے کام آسکے۔‘
شربت گلہ کہتی ہیں کہ اب تو والدین خود اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں اور ایک طرف بیٹھ کر ان مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
’میری تقاریب میں تین سال سے لے کر 14 سال کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ان کی اکثریت سرکاری سکولوں میں جاتی ہے لیکن ان سے بات کر کے نہیں لگتا کہ یہ سکول سے کچھ بھی سیکھ رہے ہیں۔‘
’یا تو ہمارے اساتذہ کو مزید محنت کی ضرورت ہے یا پھر ان اساتذہ کی صلاحیت چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘
شربت گلہ کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ اس افریقی ضرب المثل کا عملی نمونہ ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ایک بچے کی تربیت اور نشونما پورے معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔