اقبال ؒ کے شہر میں صبح سے ہی افواہیں زیرِ گردش تھیں کہ کوئی توہین مذہب کا مرتکب پایا گیا ہے۔ لہٰذا بڑی عدالت لگنے سے پہلے ہی ایک عدالت لگ چکی تھی۔
سیالکوٹ میں وزیر آباد کی ایک فیکٹری سے نکلنے والی افواہ بہت تیزی سے پھیل چکی تھی، ایسی کے ’گلی کوچوں کے خود ساختہ مفتیوں‘ کے بھی کان کھڑے ہوگئے اور وہ جا پہنچے اس کارخانے میں جہاں پہلے سے موجود ایک مشتعل ہجوم کسی پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ کسی پر صرف یہ الزام لگا تھا کہ اس نے مذہب کی توہین کر دی ہے۔
لیکن الزام لگانے والے فیصلہ لکھ چکے تھے اور اس فیصلے پر عمل درآمد کی تیاری بھی کرچکے تھے۔ وزیر آباد کی فیکٹری کا ایکسپورٹ مینیجر پریانتھا کمارا سری لنکن نژاد شہری تھا۔ وہ شاید اپنے انجام سے بےخبر تھا۔
پہلے تو ’افواہ کاروں‘ نے فیکٹری کے اندر احتجاج کیا اور پھر جتھے کی شکل میں فیکٹری کے اندر جا گھسے اور گھسیٹتے مارتے پیٹتے اس شخص کو باہر لے آئے۔ ہجوم مشتعل تھا لہٰذا پولیس اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر موجود تو تھیں لیکن کسی انجام کے انجانے خوف نے انہیں بھی آگے بڑھنے سے روک رکھا تھا۔ اس موقع پر کسی بھی قسم کی مداخلت کا مطلب موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔
پریانتھا کمارا ہجوم کے بہیمانہ تشدد سے ہلاک ہو چکا تھا۔ لیکن ابھی ایک اور انسانیت سوز کام انجام دیا جانا باقی تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے یہ ظلم بھی دیکھا کہ مقتول کی لاش کو گھسیٹ کر بیچ چوراہے لے جا کر جلایا گیا۔
یہاں نامور شاعر افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایمان
اُمت سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے
مقتول کی لاش تقریبا راکھ بن چکی تھی جب ہسپتال کی چوکھٹ پہ پہنچائی گئی۔ اس طرح سیالکوٹ میں انسانیت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ لیکن حالات اب قابو میں ہیں کیونکہ جو ہونا تھا ہو چکا۔ ایک شخص نے مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھنا تھا وہ چڑھ چکا۔ مقتول کی لاش کے ڈھیر سے اب کڑے سوالات کی صورت میں دھواں اٹھ رہا ہے۔
سوال ان زندہ لاشوں سے جو اس غیراسلامی غیرانسانی فعل کے ذمہ دار ہیں۔ کون ذمہ دار ہے انسانیت کی اس توہین کا؟ کون ہے جس نے پیغمبر اِسلام اور دین کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا۔ ماورائے عدالت قتل کی اجازت تو دنیا کا کوئی دین نہیں دیتا۔ تو پھر توہین مذہب کی آڑ میں رحمت اللعالمین کے دین پر ڈاکہ کیوں؟
امت کو کتاب کی بجائے جذبات کا یہ بیانیہ تھمایا کس نے؟ کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ توہین کی تشریح کیا ہے اور ایسی صورت حال میں نبی کریم کی حکمت عملی کیا ہوا کرتی تھی۔ کیا تاجدار ریاست مدینہ کی حیات مبارکہ میں ہمیں کوئی ایسا عمل دیکھنے کو ملا؟ یقینا نہیں، تو پھر کتاب اور سنت کے منہج سے ہٹ کر دلیل کی بجائے تلوار اور تیر سے جواب کیوں دیے جا رہے ہیں؟
جذبات نے کتاب سے اس قدر دور کر دیا کہ اب گلی گلی انسانیت کا قتل ہو رہا ہے۔ جو نام نہاد دین کی جذباتی ڈاکٹرائن کھڑی کی جا چکی ہے اس کے خوفناک نتائج تو پہلے سے ہی ہم بھگت رہے ہیں۔ دنیا اب امت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ دین پر براہ راست سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
بجائے کے جس ہستی کو رول ماڈل بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے ہم اسی ہستی کے دین کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ حکمرانِ وقت تو واقعے کی مذمت کر رہے یہ کہہ کر کے یہ غیرانسانی اور غیراسلامی فعل ہے اور کسی کو اجازت نہیں قانون ہاتھ میں لینے کی لیکن افسوس صد افسوس؛ واقعات رونما ہو جانے کے بعد ایسے بیانات پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
کیوں ریاست اور حکومت ان ہجوموں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے؟ آخر یہ رجحان بڑھتا ہی کیوں چلا جا رہا ہے۔ بات عدم برداشت کے فقدان سے کہیں آگے ہی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ افسوسناک اور شرمناک جیسے الفاظ بھی اب تو چھوٹے پڑ گئے ہیں۔
یقینا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہر واقعے کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ ہوا۔ پاکستان میں شدت پسندی کا عنصر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کو تو ہم شکست دے چکے لیکن انتہا پسندی کے خلاف ابھی تک خاطر خواہ نتائج پر مبنی کوئی آپریشن نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ریاست اور حکومت انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ انتہا پسند سڑکوں پر آ جائیں تو ریاست کی ٹانگیں کپکپانے لگتی ہیں۔ پھر انہی انتہا پسندوں کو ’اپنے لوگ‘ قرار دے دیا جاتا ہے اور جب اس بارے میں حکومت سے سوال کریں تو کہا جاتا ہے یہ ’حساس‘ معاملہ ہے۔ یعنی ریاست اور حکومت بالکل مجبور معذور اور لاچار ہے۔
لیکن آج اس مجبوری معذوری اور لاچاری کی کنفیوژن کو ہمیں دور کرنا ہوگا۔ ایک وقت تھا جب پوری قوم دہشت گردی کے خلاف کنفیوژن کا شکار تھی لیکن 2014 کے ایک سانحہ (سانحہ اے پی ایس) نے پوری قوم کو یکسو کر دیا اور دہشت گردی کے خلاف وہ ابہام ختم ہوگیا اور سب ایک پیج پر آگئے جس کے بعد دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا۔
ہم دہشت گردی کو تو شاید مات دے چکے لیکن انتہا پسندی کے نتیجے میں ہم اتنے سانحات در سانحات کا شکار ہوئے لیکن یہ کنفیوژن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ آیا ہم نے اس سے نمٹنا کیسے ہے؟
ایک طرف ہم سیالکوٹ جیسے واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے انتہا پسندوں کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ صرف مذمتی بیانات ریاستی اور حکومتی سطح پر کافی نہیں ہیں۔ ایک فیصلہ کن آپریشن کی اس ملکِ پاکستان کو اشد ضرورت ہے جو کہ انتہا پسندی کی ’فیکٹریوں‘ کے خلاف کیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔