سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجپسکا نے پاکستانی شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے اہل خانہ سے ہکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اور ان کے ملک کو یقین ہے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ہفتے کو ایک ٹویٹ میں سری لنکن وزیر اعظم نے کہا کہ وہ سیالکوٹ واقعے پر ششدر ہیں۔
دوسری جانب گذشتہ روز پیش آنے والے واقعے کی مذمت جاری ہے اور ہفتے کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) لاہور کے ترجمان کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کا بیان سامنے آیا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ترجمان کا کہنا تھا کہ ’جتنا یہ واقعہ افسوس ناک ہے اتنا ہی اس کو تحریک لبیک پاکستان سے منسوب کرنا بھی افسوسناک ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سیالکوٹ واقعے کا پس منظر اور اس سازش کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر شفاف اور غیر جانبدرانہ تحقیقات کروائی جائیں نیز ملوث کرداروں کو گرفتار کرکے سامنے لایا جائے۔‘
ترجمان کی جانب سے دیے گئے بیان میں مزید کہا گیا کہ جب ملک میں قانون کی بالا دستی ہوگی تو کسی کی قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں ہو گی۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن فیکٹری مینیجر کو قتل کرنے اور ان کی لاش جلانے کے واقعہ پاکستان کے لیے باعث شرم ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں ہونے والا خوفناک حملہ اور سری لنکن مینیجر کو زندہ نذر آتش کرنا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری کا عمل جاری ہے اور وہ خود تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو کوئی علط فہمی نہیں ہونی چاہیے، تمام ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘
اس کے علاوہ پاکستان فوج کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کی جانب سے غیر ملکی منیجر کے توہین مذہب کے الزام میں قتل کی مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ’ایسے ماورائے عدالت قتل ناقابل قبول ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سول انتظامیہ سے ہر ممکن تعاون کریں گے۔‘
سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن منیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کیلئے ایک شرمناک دن ہے۔میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 3, 2021
سری لنکا کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیے گئے بیان اور ملزمان کی گرفتاریوں کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اس معاملے میں جلد سچائی تک پہنچا جائے گا اور وزارت خارجہ پاکستان سے مکمل رابطے میں ہے۔
#SriLanka
— MFA (@MFA_SriLanka) December 4, 2021
expects that the #Pakistan authorities will take required action to investigate and ensure #justice. We are awaiting results of further #investigations and working with all parties concerned to bring the remains home#Diplomacy a@ImranKhanPTI @ForeignOffice
ہمیں امید ہے کہ پاکستانی حکام اس معاملے کی مکمل تحقیقات کریں گے اور انصاف کو یقینی بنائیں گے۔ ہم تمام مراحل مکمل ہونے کے انتظار میں ہیں تاکہ لاش کو واپس وطن لایا جا سکے۔
سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجپسکا نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس حوالے سے کہا کہ وہ انتہاپسند ہجوم کے اس وحشت ناک حملے اور بربریت سے دل گرفتہ ہیں، وہ مرنے والے کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور پریقین ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان تمام ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لا کر اپنا وعدہ پورا کریں گے۔
Shocking to see the brutal and fatal attack on Priyantha Diyawadana by extremist mobs in #Pakistan. My heart goes out to his wife and family. #SriLanka and her people are confident that PM @ImranKhanPTI will keep to his commitment to bring all those involved to justice.
— Mahinda Rajapaksa (@PresRajapaksa) December 4, 2021
واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے توہین مذہب کے الزام میں سری لنکن فیکٹری مینیجر کو قتل کرنے اور ان کی لاش جلانے کے واقعہ جمعے کو پیش آیا تھا۔
دوسری جانب پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق تازہ ترین پیش رفت میں پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں ملوث ملزم فرحان ادریس کو گرفتار کر لیا ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس نے بیان میں بتایا ہے کہ مرکزی ملزم کو ویڈیو میں تشدد کرتے اور اشتعال دلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
بیان میں ان میں مزید کہنا تھا کہ پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے واقعہ میں ملوث 100 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔
سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا جبکہ ساتھ ہی ساتھ اس واقعے ویڈیوز اور تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کے بعد اب تک مجموعی طور پر 50 افراد کو شناخت کرنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حسان خاور نے ایک بیان میں بتایا کہ واقعے میں ملوث دیگر افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے شناخت کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ایک اور مرکزی ملزم عثمان رشید کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور دیگر 100 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
-اب تک 100 سے زائد افراد گرفتار
— Hasaan Khawar (@hasaankhawar) December 3, 2021
-دو اہم مجرم فرحان ادریس اور عثمان رشید بھی سلاخوں کے پیچھے
-انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درجpic.twitter.com/rK69bNaVmg
وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور مشرق وسطیٰ طاہر اشرفی نے سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’سیالکوٹ میں جس بربریت سے سری لنکن مینیجر کو قتل کیا گیا وہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی مجرم بھی ہے کہ تو پاکستان میں توہین مذہب، توہین ناموس رسالت اور مقدسات کا قانون موجود ہے، اسے پکڑ کر عدالت و قانون کے کٹہرے میں لایا جائے نہ کہ اسے مار دیا جائے، اس کی لاش کو جلا دیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو بربریت ہے اس کا اسلام سے، یا نبی محمد کی سیرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک بھر کے علما اس کی مذمت کرتے ہیں، پاکستان علما کونسل اس کی بھرپور مذمت کر رہی ہے۔‘
اس سے قبل سیالکوٹ پولیس کے ترجمان خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’پریانتھا کمارا جن کی عمر تقریباً 50 سال ہے اور ان کا تعلق سری لنکا سے تھا، سیالکوٹ وزیر آباد روڈ پر واقع اس گارمنٹس فیکٹری جو سپورٹس اور دیگر اقسام کے گارمنٹس بناتی ہے، میں چھ سال سے کوالٹی مینیجر کے طور پر کام کر رہے تھے۔‘
ترجمان کے مطابق ’پریانتھا کمارا کا فیکٹری کے ملازمین کے ساتھ جھگڑا ہوا، جس پر فیکٹری ملازمین نے ان پر تشدد کیا اور قینچی کے وار کر کے ان کی جان لے لی اور بعد میں ان کی لاش نذر آتش کر دی گئی۔‘
ان کے مطابق ’فی الحال اس واقعے کے پیچھے مذہبی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔‘
پولیس ترجمان خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس جھگڑے کی نوعیت جاننے کے لیے تحقیقاتی ٹیم بنا دی ہے جو ذمہ داران کا تعین کرے گی اور اصل حقائق جاننے کی کوشش کرے گی۔‘
سیالکوٹ پولیس کے ایک افسر محمد سہیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پریانتھا کمارا پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے فیکٹری کی دیوار پر لگے ایک مذہبی پوسٹر کو پہلے پھاڑا اور پھر جلا دیا، جس پر فیکٹری کے باقی ورکرز نے ایک ہجوم کی صورت میں ان پر حملہ کر دیا اور انہیں تشدد کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی۔‘
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی سیالکوٹ فیکٹری میں پیش آنے والے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
وزیراعلیٰ نے انسپیکٹر جنرل پولیس کو اس واقعہ کی اعلیٰ سطح اور ہر پہلو سے انکوائری کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او اور ڈی پی او سیالکوٹ کو فوری طور پر موقع پر پہنچ کر واقعے کی تمام پہلوؤں سے انکوائری کا حکم دیا ہے۔