مغربی ممالک کے ایک مشترکہ گروپ نے اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کے سابق ملازمین کی ہلاکتوں اور گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم طالبان نے ایسے الزامات کی تردید کرتے ہوئے مغربی ممالک سے الزامات کا ثبوت دینے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ سمیت 21 ممالک اور یورپی یونین نے عالمی تظیم ہیومن رائٹس واچ اور دیگر اداروں کی جانب سے درج کی گئیں ایسی مبینہ زیادتیوں کی رپورٹوں کا حوالہ دیا۔
جرمن وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا: ’ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مبینہ کارروائیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور طالبان کی طرف سے اعلان کردہ عام معافی کے منافی ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’ایسے رپورٹ شدہ کیسز کی فوری اور شفاف تحقیق ہونی چاہیے، ذمہ داروں کو جوابدہ بنانا چاہیے۔‘ اس میں کہا گیا کہ ایسی ہلاکتوں اور گمشدگیوں کی فوری روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کو واضح کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان سید خوستی نے ایسی ہلاکتوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں طالبان حکومت کی طرف سے اعلان کردہ عام معافی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’اگر کوئی ثبوت ہے تو اس کا ہمارے ساتھ اشتراک کیا جائے۔‘
بیان کے مطابق: ’ہم سابق حکومتی ارکان کے قتل کے کچھ انفرادی واقعات سے آگاہ ہیں لیکن یہ نجی دشمنی کی وجہ سے ہوئے اور ہم نے ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔ یہ امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف محض ایک الزام ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔‘
ہیومن رائٹس واچ نے 30 نومبر کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان فورسز نے اپنی اعلان کردہ عام معافی کے باوجود 15 اگست کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے مبینہ طور پر 100 سے زیادہ سابق پولیس اور انٹیلی جنس افسران کو قتل یا جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔
طالبان کی وزارت داخلہ نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کرے گی جس کو سابق فوجیوں کے خلاف پرتشدد انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے دکھایا جائے گا۔