عالمی بینک افغانستان کے منجمد امدادی فنڈز میں سے 50 کروڑ ڈالرز تک کی رقم انسانی امداد کے لیے کام کرنے واے اداروں کو دینے کی تجویز کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
عالمی بینک کے منصوبے سے واقف افراد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ عالمی بنک نے منصوبہ بنا رہا ہے، تاہم سرکاری شعبے کے ہزاروں کارکنان اس کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے جبکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کو امداد کی فراہمی پیچیدہ بھی ہو سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق بینک کے بورڈ کے ارکان کا اجلاس منگل ہو رہا ہے جس میں افغانستان کو امداد کی فراہمی کی تجویز پر غور کیا جائے گا جو امریکی اور اقوام متحدہ کے حکام کے ساتھ مل کر حالیہ ہفتوں میں تیار کی گئی ہے۔
اس تجویز کے تحت افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ (اے آر ٹی ایف) کے فنڈز سے رقم امدادی اداروں کو دی جائے گی۔ اس ٹرسٹ کے پاس مجموعی طور پر ڈیڑھ ارب ڈالر کے فنڈز ہیں۔
20 سال بعد امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار کے تین مہینوں میں افغانستان کی تین کروڑ 90 لاکھ کی آبادی کو تباہ حال معیشت، موسم سرما میں خوراک کی قلت اور بڑھتی ہوئی غربت کے مسائل کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق افغان ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی بنک کے ذریعے ملنے والی امداد سے مدد ملے گی لیکن اب بھی بڑے خلا موجود ہے جیسے کہ سرکاری ملازمین پر عدم توجہی اور پابندیوں کے باوجود ملک میں فنڈز کو لانا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کو ملنے والی مالی امداد کا بڑا حصہ صحت کے شعبے پر خرچ کیا جائے گا۔ ملک میں اب تک صرف سات فیصد آبادی کو کرونا (کورونا) وائرس کے خلاف حفاظتی ویکسین لگائی جا سکی ہے۔
فی الحال افغانستان کو ملنے والی رقم اساتذہ اور دوسرے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے افغانستان میں تعلیم، صحت اور سماجی خدمات کے شعبے تیزی سے تباہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں وہ کارکن جنہیں مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی وہ کام کرنا بند کر کے ملک سے بڑی تعداد میں جانے والے افراد میں شامل ہو سکتے ہیں۔
عالمی بینک کے منصوبے سے واقف ذرائع میں سے ایک نے روئٹرز کو بتایا کہ ایک بار امداد کی رقم افغانستان پہنچ جانے کے بعد بنک کے پاس اس پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
دوسری جانب ایک امریکی عہدے دار نے زور دیا ہے کہ یونیسف اور امداد وصول کرنے والے دوسرے اداروں کے پاس ’اپنا کنٹرول اور پالیسیاں موجود ہوں گی۔‘
امریکی عہدے دار نے افغانستان پر عائد پابندیوں کو بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا: ’تجویز میں کہا گیا ہے کہ عالمی بینک پیسہ کسی نگرانی یا رپورٹ کے بغیر اقوام متحدہ اور دوسرے امدادی اداروں کو منتقل کرے لیکن تجویز میں مالیاتی شعبے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ رقم کس طرح افغانستان پہنچے گی۔‘
واضح رہے کہ عالمی بینک نے اس منصوبے کی تفصیل کے بوارے میں تصدیق یا تردید نہیں کی ہے اور معلومات اس منصوبے سے واقف افراد کی جانب سے خبر رساں ادارے کو فراہم کی گئی ہے۔