عشاء کی نماز کے بعد کافی وقت گزر چکا تھا اور مسجد کے ماحول پر پرسکون خاموشی طاری تھی۔ نمازیوں کی بڑی تعداد نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے رخصت ہو چکی تھی جبکہ صحن میں بچھی صفوں پر اکا دکا نمازی دھیمی آواز سے ذکر الٰہی میں مشغول تھے۔ ذکر و اذکار سے منور اس ماحول میں امام صاحب بھی مسجد کے ایک نیم روشن کونے میں چند افراد سے مخاطب تھے۔
’اگر ایران، سعودی عرب اور پاکستان باہم مل جائیں تو پوری دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ پھر سے قائم ہو سکتا ہے۔‘
محترم مولانا صاحب نے، جو حافظ اور مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جدید یونیورسٹی سے اسلامی علوم میں ایم فل بھی کر چکے ہیں، اپنے سٹریٹجک فلسفے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’سعودی عرب کا پیسہ، ایران کا جذبہ اور پاکستان کی افواج۔ یہ تینوں اجزا مل کر ایک ایسی قوت تشکیل دیں گے کہ پوری دنیا میں کوئی بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔‘
امام صاحب کے بزرگ، ادھیڑ عمر اور اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد پرمشتمل سامعین نے بھی امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے پیش کیے گئے اس کامل حل سے فوری اور بھرپور اتفاق کیا۔
اور کرتے بھی کیوں نہ وہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ تھے جہاں عالمِ دین سے اختلاف کو دین سے اختلاف بنا دیا جاتا ہے۔ وہ بھی تو اسی ماحول کے تربیت یافتہ تھے جہاں سوال اٹھانا جرم تصور کیا جاتا ہے، اور وہ بھی منبر سے اٹھنے والی صدا پر۔ ایسے معاشروں میں پلنے والوں کی سوچ سوال کرنے جیسی مشقت کی عادی نہیں رہتی۔
بہرحال آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا صاحب کا یہ خواہش نما تجزیہ حقیقت کی دنیا میں کہاں کھڑا ہے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ سوچ صرف ایک مسجد کے امام صاحب کی نہیں بلکہ ہماری بیشتر مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ ایسے ہی جذباتی اور غیر حقیقی نعروں کے بل بوتے پر اپنی سیاست چمکائی ہے۔
ایرانیوں اور عربوں کے درمیان خطے پر غلبے کی جنگ ہزاروں سال پرانی ہے۔ دونوں جانب اسلام کا پھیلاؤ بھی اس مخاصمت کو کم نہیں کر سکا بلکہ حجاز میں آل سعود کی حکمرانی اور پھر ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد باہمی تعلقات کی نوعیت شیعہ سنی خونی دشمنی میں بدل چکی ہے۔ دونوں ممالک سالہا سال سے پراکسی وارز کے ذریعے باہم پیکار ہیں۔
دوسری طرف جنوبی ایشیا میں امریکہ کا پرانا اتحادی، پاکستان، خطے میں سعودی مفادات کا بھی سب سے بڑا محافظ تصور ہوتا ہے۔ اس صورتحال کے باعث پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بھی اکثر و بیشتر کشیدہ ہی رہتے ہیں۔
لیکن بہرحال بین الاقوامی سطح پر کچھ بھی ناممکن نہیں۔ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ عید کے فوراً بعد سعودی عرب، ایران اور پاکستان مضبوط اتحاد میں بندھ جائیں گے اور باہمی اختلافات اور اپنے اپنے قومی مقاصد کو بھلا کر دنیا پر غلبے کے لیے مشترکہ کوششیں بھی شروع کر دیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تین ملکی اتحاد کس طرح عالمی سطح پر اپنا غلبہ قائم کرے گا۔ مولانا صاحب کے تجزیے کے مطابق سعودی عرب کا پیسہ، ایران کا جذبہ اور پاکستان کی فوجی صلاحیت مل کر یہ انقلاب برپا کریں گے۔
تو کیا یہ توقع رکھی جائے کہ مجوزہ اتحاد قائم ہوتے ہی پاکستانی افواج سعودی ریال اور تیل کی مدد سے اپنے ٹینک آگے بڑھا اور طیارے اڑا کر ہندوستان پر قبضہ کر لیں گی؟ یا ایرانی جذبے کی قیادت میں اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا؟ یا عرب سپین کے راستے یورپ میں داخل ہو جائیں گے اور وہاں کے انتہائی ترقی یافتہ معاشرے لمحوں میں مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کے سموں میں ڈھیر ہو جائیں گے؟ اور پھر بالاخر اس تین ملکی اتحاد عظیم کے سامنے امریکہ بھی اپنا وجود کھو دے گا؟
چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ پاکستانی افواج کی پیش قدمی، ایرانی جذبے اور سعودی ریال کی طاقت سے یہ سب کچھ ہو بھی جاتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟
کیا ایسی مہم جوئیوں سے پوری دنیا پر مسلم امہ کی فلاحی حکومت قائم ہو جائے گی؟ یہ سب کچھ تو ہٹلر نے بھی حاصل کر لیا تھا۔ اس کی فتوحات کتنی دیرپا رہیں؟ ایسے جھنڈے تو جاپان نے بھی گاڑے تھے۔ اس کی جنگی فتوحات کب تک اور کہاں تک قائم رہیں؟ یہ حقائق تاریخ کا حصہ ہیں کہ محض جنگی جنون اور وسائل کی وقتی فراوانی سے جرمنی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں امریکی اور یورپین اقوام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تاہم یہ سب عارضی ثابت ہوا۔
اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ’دنیا پر غلبہ‘ کا معنی اور اس کی اصل صورت کیا ہو سکتی ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک نے آج تک صرف دولت کی ریل پیل اور جنگ کے ذریعے عالمی سطح پر غلبہ حاصل نہیں کیا۔ ہزاروں سال کے تاریخی ارتقا کے بعد یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ اصل غلبہ علم کا غلبہ ہے۔ اصل برتری تحقیق کی برتری ہے۔ اصل طاقت معیشت کی طاقت ہے۔ اصل قوت مضبوط سماج اور مسلسل جدوجہد کی قوت ہے۔ حقیقی غلبے کے ان بنیادی اجزا کے بعد آتا ہے نمبر جنگی قوت کا۔ مسلم ممالک کی اکثریت بےعملی اور فرسودہ پالیسیوں کی بدولت دنیا کی قیادت تو کیا خود اپنے عوام کو باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
لیکن جدید علوم سے عاری ہمارے ’جید علما کرام‘ اس بات کو سمجھنے سے شاید معذور ہیں۔ یہ آج بھی اس دور میں زندہ ہیں جب صرف جنگ و جدل سے برتر و ادنیٰ کا تعین ہوتا تھا۔ دین کے تنہا وارث ہونے کا دعوے دار یہ طبقہ تو اس دور قدیم سے بھی کچھ سیکھنے کا روادار نہیں جب علم و فضل، تحقیق و جستجو اور جدید علوم مسلم دنیا کی پہچان ہوا کرتے تھے۔
عام آدمی کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق دیانت، جدوجہد، علم کے حصول اور مفید شہری بننے کی تلقین کرنے کی بجائے ہمارے علما عظمت کے حصول کے لیے مفروضوں پر مبنی ایسے حل پیش کرتے ہیں جو عملی زندگی میں ناکام رہنے کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں دے سکتے۔
بہرحال اگر تو ’سعودی عرب کا تیل، ایران کا جذبہ اور پاکستان کی جنگی قوت‘ مل کر واقعی پوری دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرا سکتی ہے تو سو بسم اللہ۔۔۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر ہمارے عالی قدر علما کرام کو ٹھوس زمینی حقائق سے عاری خطبات اور عوام میں بے معنی جذبات پر مبنی گمراہی پھیلانے کا سلسلہ ترک کر دینا چاہیے۔
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔