پولیس کے مطابق کراچی میں رنچھوڑ لائن کے نارائن پورہ کے مندر میں گذشتہ رات گھس کر ہتھوڑے سے مورتی توڑنے والا ملزم گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس واقعے کا مقدمہ رنچھوڑ لائن کے نارائن پورہ کمپاؤنڈ کے رہائشی مکیش کمار کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مکیش کمار نے بتایا کہ ’پیر کی شام کو میری اہلیہ مندر میں پوجا کر رہی تھی کہ ایک شخص اچانک مندر میں گھس آیا اور ایک بڑے ہتھوڑے سے ہندومت دیوی درگا ماتا یا جوگ مایا کی مورتی کے سر پر وار کرنا شروع کردیا، جس پر میری اہلیہ نے شور مچایا تو اہل محلہ جمع ہوگئے اور اس شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔‘
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ لوگوں نے اس شخص کو پکڑنے کے بعد مار پیٹ کرکے اس کی قمیص پھاڑ دی۔
دوسری ویڈیو میں بڑی تعداد میں لوگ عید گاہ تھانے کے باہر نظر آئے اور ایک شخص ایک بڑا ہتھوڑا پولیس کے حوالے کرتے نظر آیا۔
مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پولیس نے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ ’ملزم کا ذہنی توازن درست نہیں لگتا۔‘
جبکہ مکیش کمار نے پولیس کے دعویٰ کی ترید کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کا بیان غلط ہے۔ جب ہم نے اسے پکڑا تو وہ ہوش و ہواس میں تھا۔ اس نے اپنا نام، پتہ بتانے کے ساتھ درست طریقے سے گفتگو کی۔ جب ہم نے اس سے پوچھا کہ مورتی کیوں توڑی تو اس نے کہا کہ مورتی آپ کو کچھ نہیں دیتی اور گمراہ کرتی ہے اس لیے مورتی کو توڑا۔‘
عیدگاہ تھانے (سابقہ اولڈ نیپئر تھانے) کی پولیس نے ولید ولد محمد شبیر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 952 (مذہبی عبادگاہ کی توہین کی دفعہ جس کی سزا دو سال ہے) اور دفعہ 427 (توڑپھوڑ کرنا، 50 روپے یا اس سے اوپر کا نقصان کرنا، جس کی سزا دو سال ہے) کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
پولیس نے منگل کی صبح ملزم کو سخت سکیورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں پیش کیا، مگر جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ ’چوں کہ یہ توہین مذہب کا معاملہ ہے، لہذا ملزم کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔‘
جس کے بعد پولیس نے 21 دسمبر کو ملزم کو انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں پیش کرکے 28 دسمبر تک کا جسمانی ریمانڈ لے لیا۔
واضح رہے کہ تاحال ملزم کی طرف سے کسی نے وکالت نامہ جمع نہیں کیا ہے۔
مکیش کمار کے مطابق: ’ہندوؤں میں شدید غم اور غصہ ہے۔ ہم نے گذشتہ رات سے کچھ نہیں کھایا اور سوئے بھی نہیں ہیں۔ پولیس ہمیں کچھ نہیں بتا رہی۔ ہمارے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ اس مقدمے میں انسداد دہشتگری کی دفعہ کو شامل کیا جائے۔ اگر اس واقعے میں انصاف نہ ملا تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔‘
سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کراچی (جنوبی) کے اقلیتی ونگ کے صدر روحت کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’واقعے کے بعد لوگ انتہائی غصے میں تھے، بڑی مشکل سے لوگوں کو کنٹرول کرکے ملزم کو پولیس کے حوالے کیا۔ حالات کو قابو کرنے کے لیے رینجرز کو بھی تعینات کرایا۔‘
’اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے بات کر رہے ہیں کہ کیس میں انسداد دہشتگردی کی دفعہ شامل کی جائے۔‘
صوبائی وزیر اقلیتی امورسندھ گیانچند ایسرانی نے ایک بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسوس ناک واقعہ ہے اور سیالکوٹ کے بعد نارائن پورہ مندر واقعہ ملک کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔
’نارائن پورہ کمپاؤنڈ مذہبی روداری کا گڑھ‘
کراچی کے قدیم علاقوں میں ایک رنچھوڑ لائن کا نارائن پورہ کمپاؤنڈ 1924 میں قائم ہوا۔ اس وقت اس جگہ جھگیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہاں کے مکینوں کے مطابق اس جگہ کو 'مذہبی روداری کا گڑھ' سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں ہندو، سکھ، مسیحی اور مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں۔
یہاں ایک ایسی قدیم بستی آباد ہے، جہاں تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد برس ہا برس سے ایک ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی لوگوں کے مطابق کمپاؤنڈ میں اکثریت ہندؤں کی ہے۔ جب کہ دوسرے نمبر پر مسیحی اور اس کے بعد سکھ رہتے ہیں۔
کمپاؤنڈ میں تین سو گھرانے مسیحیوں کے آباد ہیں اور ایک گرجا گھر بھی بنا ہوا ہے۔ جب کہ سکھوبرادری کے 50 گھرانوں کے لیے ایک صدی قدیم گردوارہ بھی موجود ہے۔
ہندؤں کا مندر بھی کمپاؤنڈ میں دیگرعبادت گاہوں کے ساتھ قائم ہے۔ عاشورہ کے دوران نارائن پورہ سے ذوالجناح اور تعزیے کا جلوس نو محرم کی شام کو برآمد کیا جاتا ہے، جس میں مقامی ہندؤں کی بڑی تعداد بھی شرکت کرتی ہے۔
کمپاؤنڈ کے رہائشی صادق مسیح کے مطابق نارائن پورہ کمپاؤنڈ میں سب مذاہب کے لوگ ایک ساتھ روداری کے ساتھ رہتے ہیں۔
صادق مسیح کے مطابق: 'سب لوگ ایک دوسرے کے مذہبی تہوار مل جل کر مناتے ہیں۔ ہمارا کمپاؤنڈ مذہبی روداری کا گہوارہ ہے۔ ایسے واقعات سے شدید دکھ ہوا ہے۔‘
مندر میں توڑ پھوڑ کا پہلا واقعہ نہیں
پاکستان میں ہندو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی مبذہبی اقلیت سمجھے جاتے ہیں، جن کی اکثریت سندھ میں آباد ہے۔
نارائن پورہ مندر میں توڑ پھوڑ کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ نومبر میں حیدرآباد سے متعصل کوٹری شہر کے مہا دیو شو راج مندر میں نامعلوم افراد نے رات کو مندر کی چھت سے داخل ہو کر مورتیوں کو توڑا اور اس کے علاوہ شوکیس میں رکھی مورتیوں کے دو چاندی کے ہار چوری کرلیے تھے۔
اس کے علاوہ رواں سال اگست میں پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان کے موضع بھونگ شریف میں بڑی تعداد میں مشتعل افراد نے مقامی مندر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور مندر انتظامیہ کو بھی یرغمال بنا لیا تھا۔
اس واقعے کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے پر مقدمہ درج کرکے چار درجن مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
دسمبر 2020 کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک میں واقع ایک مندر پر حلمہ ہوا جس میں مندر کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
اس کے علاوہ نومبر 2020 کو کراچی کے علاقے لیاری ٹاؤن کے سیتل داس کمپاؤنڈ کے مندر پر کچھ افراد نے حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی تھی۔
ان واقعات میں مذبی عبادت گاہوں کی توہین کے مقدمات درج کیے گیے تھے۔
پاکستان میں رائج توہین مذہب کا قانون کیا ہے؟
پاکستان میں رائج توہین مذہب کا قانون کیا ہے؟
کرمنل لا کے ماہر وکیل ایڈوکیٹ شوکت حیات نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں رائج توہین مذہب کے قوانین کی دفعات 295، 296 اور 298 تقسیم ہند سے قبل برطانوی حکومت کی جانب سے تعزیرات ہند میں شامل کی گئی تھیں۔ 1927 اور پھر پاکستان بننے کے بعد 1960 میں قانون میں ترامیم کے باجود ان دفعات کو قانون میں رکھا گیا۔ اس قانون کے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ یا مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔
سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے حدود قانون کے تحت 1982 میں دفعہ 295 میں شق بی شامل کی جس کے تحت قران کی توہین کرنے والے کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔ اس کے بعد 1986 میں ترمیم 295 دفعہ میں شق سی شامل کی گئی، جس کے تحت اگر الفاظ، تحریر یا کسی بھی طریقے سے پیغمبر اسلام کی توہیں کی تو اس کی بھی سزا موت یا عمر قید ہے۔