پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہرِ ایبٹ آباد کے قدیم قصبے نواں شہر میں عہدِ رفتہ کی یاد کو تازہ کرتا ہندوؤں کا مقدس قدیم مندر کمپلیکس خستہ حالی کی تصویر بن چکا ہے۔
نواں شہر قصبہ ہزارہ کا ایک تاریخی رہائشی علاقہ ہے جو صدیوں سے اہم تجارتی گزرگاہ شاہراہِ ریشم کے کنارے پر آباد رہا ہے۔
تقسیمِ برصغیر پاک و ہند سے قبل اس قصبے میں ہندو مسلم صدیوں سے ساتھ رہتے تھے اور ہندوؤں کی اکثریت بااثر اور صاحبِ ثروت تھی۔
تاریخ کے اس عظمتِ رفتہ کی یادگاریں نواں شہر میں بکھری پڑی ہیں جو تاریخ نویسوں کے قلم سے سمٹنے کی منتظر ہیں۔
نواں شہر کے قدیم بازار سے جب اندر داخل ہوں تو پرانا محلے میں ایک وسیع رقبے پر محیط یہ مندر کمپلیکس ہے جس کا اب کچھ حصہ ہی سالم حالت میں ہے۔ جب کہ اکثر عمارات حوادث زمانہ کا شکار ہو کر منہدم ہو رہی ہیں۔
مندر کمپلیکس میں قائم مرکزی عبادت گاہ تک پہنچنے کے لیے 108 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہا رہی ہیں۔
ہندوؤں کے نزدیک پانی کو مقدس اہمیت حاصل ہے اور آج بھی کروڑوں ہندو صبح نہار منہ گنگا و جمنا دریاؤں میں ضرور اشنان کرتے ہیں اور پھر پوجا پاٹ میں حصہ لیتے ہیں۔
اس ثقافت کے گہری چھاپ کا عکس نواں شہر مندر میں بھی ہے۔
مندر کمپلیکس کی عمارات ندی کے دائیں کنارے پر واقع ہیں جو اب تجاوزات کے باعث سکڑ رہی ہے۔ ندی کا ماخذ مندر کے اطراف کے چشمے ہیں جن کا میٹھا اور شفاف پانی آج بھی نواں شہر کو سیراب کرتا ہے۔
ماضی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے تالاب الگ الگ تھے۔ اس کے علاوہ مسلمان اور ہندو عورتوں کے نہانے کا باپردہ انتظام بالکل علیحدہ سے تھا۔ تالاب مخصوص طرز پر تعمیر کیے گئے تھے آج بھی یہاں دو تالاب موجود ہیں جو اپنے تاریخی حسن کے ساتھ منفرد نظارہ رکھتے ہیں جہاں گرمی کے ستائے نوجوان اور بچے ہنستے کھیلتے نہاتے نظر آتے ہیں۔
ایبٹ آباد کے تاریخی ورثے پر کام کرنے والی معروف قانون دان اور محقق شبنم نواز نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: 'نواں شہر مندر کمپلیکس عمارات کے وسیع سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ مندر کی مرکزی عمارت یعنی پوجا گھر دو منزلہ ہے، پہلی منزل کی تعمیر خوبصورت تراشیدہ پتھروں سے کی گئی ہے جبکہ دوسری منزل ہزارہ کے جنگلات میں کسی زمانے میں پائے جانے والے بکثرت دیودار کی لکڑ سے تعمیر کی گئی تھی'۔
مندر کی یہ عمارت عہدِ رفتہ کی دلیل دیتی ہے جب اس قصبے میں مذہبی رواداری کے ثقافت کی بہت مضبوط جڑیں تھیں اور لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے جس میں مذہب و نسل کی تفریق نہیں تھی۔
نوجوان محقق سرمد فراز عباسی بتاتے ہیں کہ ’مندر کے اس کمپلیکس میں مرکزی عمارت کے علاوہ یاتریوں کے رہنے کے لیے دھرم شالا بھی ہے جس کی عمارت آج کل پرائمری سکول کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ مندر کی عمارت اگرچہ امتداد زمانہ اور حکومتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ کر خستہ حال ہے مگر دھرم شالا آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔‘
مندر کے ساتھ پجاریوں کے رہنے کے لیے بھی مناسب انتظام تھا ان کے رہائشی کمرے الگ سے بنے ہوئے تھے جو تقسیم کی عظیم مہاجرت کے بعد یہاں آباد کاری ہوئی اور کئی عمارات اب میونسپل کمیٹی کے رہائشی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
شبنم نواز بتاتی ہیں کہ ’مندر کی طرز تعمیر ناگری اور کشمیری ہے جس کی وجہ ماضی میں کشمیر اور ہزارہ کے خطے آپس میں گہرے ثقافتی و جغرافیائی رشتوں میں منسلک رہے ہیں۔‘
شبنم کے مطابق کشمیر جانے کے لیے چند ہی راستے سارا سال کھلے رہتے تھے جن میں سے دو راستے ہزارہ پکھلی، گڑھی حبیب اللہ اور راولپنڈی کوہالہ سے ہیں جو اسی خطے میں واقع ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریسرچ سکالر اور آرکیٹیکٹ سعد اورنگزیب نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا : ’اس مندر کی تعمیر میں بھی خاص اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ یہ باقی عمارات سے منفرد نظر آئے۔ مندر کا شکارا کاشی ناتھ کے مندروں جیسا ہے۔ مستطیل عمارت کے اوپر خوبصورت شکارا بنانے والے ہنر مندوں کی بہترین فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے۔‘
وجے سیٹھی جن کا تعلق ہندو مذہب سے ہے آج بھارت کے شہر ڈیرہ دون کے رہائشی ہیں۔ ان کے والدین نواں شہر سے تھے۔ حالانکہ انہوں نے خود کبھی نواں شہر نہیں دیکھا مگر وہ یہاں کے قدیم مندر اور محلوں کے بارے میں اتنا وسیع علم رکھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے برسوں وہ یہاں گھومے پھرے ہوں۔ انہیں یہ ورثہ ان کے والد کی یاداشت سے ملا ہے۔
وجے سیٹھی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کے والدین نے سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت نواں شہر سے ہجرت کی۔ وہ اپنے والد سے سنی یاداشت بتاتے ہیں کہ سنہ 1937 میں مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو بھی نواں شہر آئے اور مقدس ہندو مندر میں گئے۔ جب کہ بھارت کی تحریک آزادی کے اہم رہنما اور بعدازاں بھارت کے بننے والے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کو ان کے والد نے کندھوں پر بٹھا کر مندر کی 108 سیڑھیاں اتار کر ناڑوں یعنی چشموں تک لے گئے۔۔
آج مندر کمپلیکس کی اکثر عمارتیں مخدوش ہو رہی ہیں۔ جب کہ مرکزی عبادت گاہ کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ لکھائی کی گئی ہے۔ اس کے اکھڑتے ہوئے پتھر اس بات کا شاہد ہیں کہ صدیوں پہلے محنت اور لگن سے تعمیر کیا گیا یہ مقدس مندر آج مناسب نگہداشت اور دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب شکست و ریخت کا شکار ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔
سرمد فراز عباسی اس کا ذمہ دار حکومتی عدم دلچسپی اور بے حسی کو ٹھہراتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ’محکمہ آثارِ قدیمہ کے عدم توجہی کے باعث مندر کے اراضی پر قبضے ہو رہے ہیں جب کہ مندر کے احاطے میں منشیات اور نشہ آور ٹیکوں کے ڈھیر لگے ہوئے اور یہ استھان منشیات استعمال کرنے والوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔‘
شبنم نواز ایڈووکیٹ کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ کا اینٹیکوٹی ایکٹ کہتا ہے کہ ’100سال سے پرانی عمارت تاریخی ورثہ تصور ہو گی جس کی دیکھ بھال کی مکمل ذمہ داری محکمہ کی ہو گی۔ پاکستان مختلف بین الاقوامی چارٹرز اور ورلڈ ہریٹیج کنونشن کا بھی دستخط کنندہ ہے اس لیے اس مندر کا تحفظ اور اس کی مرمت اور بحالی محکمہ آثار قدیمہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔‘
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مندر کی ان عمارتوں کو بحال اور ان کی تزئین و آرائش کر کے نہ صرف ان کی تاریخی حیثیت کو بحال کیا جا سکتا ہے بلکہ مذہبی سیاحت جو آج کل نہ صرف ابھرتی ہوئی ٹورزم انڈسٹری ہے بلکہ کسی ملک کا مثبت تاُثر بھی سامنے لاتی ہے۔ اگر حکومت اس تاریخی ورثے کے تحفظ کے اقدامات کرے تو اسے دیکھنے کے لیے ہندو برادری دیگر ممالک سے یہاں کا رخ کرے گی جس سے بھائی چارے کی فضا بحال ہو جائے گی۔
بصورتِ دیگر نواں شہر کی صدیوں کی تاریخ کا واحد مذہبی اور ثقافتی ورثہ کسی بھی وقت کھنڈر بن کر قصہ پارینہ بن سکتا ہے۔