مجھے سچ میں سمجھ نہیں آتی کہ کسی ملک کا کوئی رہنما کیوں چاہے گا کہ کئی سال حکومت کرنے کے بعد وہ اگلی چند دہائیوں کے لیے ایک لطیفے میں تبدیل ہو جائے، لیکن ایسے لوگ موجود ہیں جو میری اس بات سے اختلاف کریں گے۔ یہ مردانہ انا ہے یا خبط؟ عظمت، لاعلمی یا پھرسادگی؟ ابھی تک گیارہ افراد نے کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی کے لیے خود کو میدان میں اتار ا ہے۔ ٹوری پارٹی کے ملبے میں دبے کچھ اور افراد بھی ہوں گے جو اس مقام کے خواہش مند ہوں گے۔
تاہم، ایک چیز جو اس حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے اور قابل افسوس ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سفید فام اور مرد ہیں۔ میں ٹریزامے کی جانب سے چھوڑے جانے والے ابتر حالات سے لاعلم نہیں ہوں۔ انہوں نے سالوں گزار دیے لیکن ریفرنڈم سے پیدا ہونے والی خلیج کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ میں ایک لمحے میں نوکری کھو دوں گی اگریہ سمجھوں کہ کوئی غیر سفید فام اور خاتون موجود حالات میں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں جا کر پلک جھپکتے میں تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کی حامل ہے۔
یہ ایک اچھا موقع ہو گا یہ یاد کرنے کے لیے کہ کسی نہ کسی حد تک مردوں کے پیدا کردہ مسائل کے حل کے لیے خواتین ہی کوشش کرتی ہیں۔
2017 میں تقریبا تین ہزار مینیجرز نے پروفیسر اوئینڈ ایل مارٹنسین کی سربراہی میں بی آئی نارویجین بزنس سکول میں ہونے والی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا کہ خواتین مردوں کی نسبت بہتر رہنما ثابت ہوتی ہیں۔
سکینڈنیوین ماہرین تعلیم کے مطابق پانچ میں سے چار مقابلوں میں خواتین کی کارکردگی مردوں سے بہت بہتر رہی۔ ان میں فیصلہ لینے اور رابطے کی صلاحیت، تخلیقی اور مشاورت کو اہمیت دینے، خوش مزاجی اور حمایت فراہم کرنے، مقاصد کا تعین کرنا اور ان کے حصول کے لیے طریقہ کار طے کرنے جیسے اہم مقابلے شامل تھے۔
مرد صرف کام کے دوران پیدا ہونے والے ذہنی تناؤاور جذباتی طور پر مستحکم ہونے جیسے پیمانے پر پورے اتر سکے۔
پروفیسر مارٹنسین کے مطابق اگر آپ موجودہ نظام میں خواتین کے کردار کے حوالے سے سوال کرتے ہیں تو اس کا جواب یقینی طور پر بہت حیران کن نہیں ہو گا۔
ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ سالانہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 149 ملکوں میں سے صرف 17 ممالک میں خواتین سربراہان، 18 فیصد وزرا اور 24 فیصد پارلیمنٹ اراکین خواتین ہیں۔ دنیا بھر میں انتظامی پوزیشنز پر خواتین کی شرح صرف 34 فیصد ہے۔ یہ رپورٹ ان ممالک کی تفصیلات پر مبنی ہے جہاں اس حوالے سے ڈیٹا دستیاب تھا۔
مرد ابھی تک دنیا پر حکومت کر رہے ہیں لیکن تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ خواتین مسائل کے حل کے لیے زیادہ سنجیدگی سے کام کرتی ہیں اور اگر یہ مسائل حل ہو جائیں تو اس سے ہماری زندگی میں کافی بہتری آسکتی ہے۔ یونیسکو کے مطابق خواتین کی رہنمائی میں وسائل کی مساوی تقسیم کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقننہ میں خواتین کی زیادہ تعداد والے ممالک صحت، تعلیم اور عوامی فلاح پر دفاع اخراجات سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
2010 میں تقابلی معیشت پر شائع ہونے والے ایک یورپی اخبار کے مطابق 103 ممالک جہاں مقننہ میں خواتین کی نمائندگی موجود ہے ،انہوں نے عوامی فلاح کے منصوبوں پر 3.4 فیصد زیادہ خرچ کیا ،ان ممالک کی نسبت جہاں خواتین کی نمائندگی نہیں تھی۔
یونیسکو کے مطابق فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والی پوزیشنز پر مردوں کا غلبہ خواتین کی آواز اور ان کے پالیسی پر اثر انداز ہونے کے امکانات کو کمزور کرتا ہے اور ایسا عالمی، ملکی، مقامی حتی کہ سکول اور کمیونٹیز کی سطح پر بھی ہوتا ہے۔
یہ بات عمومی طور پر جانی جاتی ہے کہ ایسے ادارے جہاں مینجمنٹ متنوع ہو وہاں معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں۔
ای واے کی ایک تحقیق کے مطابق جن اداروں کی صف اول کی پوزیشنز میں خواتین کی تعداد تیس فیصد تک ہوتی ہے وہ اپنے منافعے میں سالانہ چھ فیصد تک اضافہ کر سکتے ہیں لیکن یہ مسئلہ اس سے زیادہ گہرا اور سنجیدہ ہے۔
2004 میں ماہرنفسیات میچل ریان اور الیکس حیسلام نے اس رجحان کو ’گلاس کلف‘ یعنی شیشے کی چوٹی کا نام دیا اور ایف ٹی ایس ای کی سو کمپنیز کی تحقیق پر مبنی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ بحران کے شکار اداروں کی باگ ڈور خواتین کے ہاتھ میں دینا بھی رائج طریقہ کار ہے۔
کامیابی کی کافی کہانیاں بھی موجود ہیں۔ 2009 میں جوہانا سیگیورڈوٹر آئس لینڈ کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت ان کا ملک بدترین معاشی مشکلات سے دوچار تھا۔ انہوں نے ملک کو اس مشکل سے نکالا ،اس کی معیشت کو سنبھالا اور ایسا انہوں نے بہت کم مدت میں ممکن کر دکھایا۔
وہ دنیا میں پہلی ہم جنس پرست سربراہ مملکت تھیں۔ زیروکس کی سابقہ سی ای او این ملکائے نے بھی اپنی کمپنی کو صرف ایک سال کے عرصے میں نقصان سے نکال کر منافع کمانے کی راہ پر ڈال دیا۔ مجھے اس بات سے بھی اتفاق ہے جو واشنگٹن پوسٹ کی کالم نگار رابرٹ جے سیموئل سن کہتے ہیں کہ یہ ٹرمپ یا اوبامہ نہیں جنہوں نے امریکا کو معاشی بحران سے نکالا بلکہ یہ فیڈرل ریزورز کی سربراہ جینٹ یلین ہیں، جنہوں نے 2014 سے 2018 کے دوران ایسا کر دکھایا۔
اور پھر انگلا میرکل بھی ہیں۔ آپ انہیں پسند کریں یا نہیں لیکن انہوں نے سخت حالات میں جرمنی کو نہ صرف مشکلات سے نکالا بلکہ کئی بحرانوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چاہے وہ عالمی معاشی بحران ہو، یورو زون کا قرضہ ہو، پناہ گزینوں کا مسئلہ ہو، انہوں نے ذہانت اور عقلمندی سے ان مسائل کو نہ صرف جمہوری بلکہ انسانی انداز میں حل کیا ۔
مردوں کی طرح خواتین بھی غلط فیصلے کر سکتی ہیں۔ وہ نا اہل یا بے وقوف بھی ہو سکتی ہیں، لیکن وہ مذاکرات میں اچھی ہو سکتی ہیں، بحرانوں کے حل کے لیے جلد فیصلے لے سکتی ہیں اور ایک مضبوط رہنما بھی ہو سکتی ہیں۔
صدیوں تک مردوں کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ خود کو اچھا رہنما ثابت کر سکتے تھے۔ ان میں سے کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام رہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خواتین کو بھی یہ موقع دیں۔ وہ شاید اس تھیوری کو سچ ثابت کر دکھائیں۔