افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی لیکن اب یہ تعطل کا شکار ہیں، تاہم ہماری کوشش ہے کہ ان مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری انتظامیہ کا کہنا ہے وہ تحریک طالبان پاکستان یا کسی اور گروہ کو افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس سوال پر کہ تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے، منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ کئی سال سے پاکستان کے لیے تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی ایک سنجیدہ مسئلہ رہا ہے، بالخصوص پاکستان کے سرحدی علاقوں میں، لیکن طالبان کی عبوری حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو یقین دہائی کرائی گئی ہے کہ طالبان افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘
منصور احمد خان کے مطابق افغان طالبان کا کہنا تھا کہ چونکہ تحریک طالبان ایک پاکستانی گروپ ہے اس لیے پاکستان کو ان سے مذاکرات کرنے چاہییں۔ جس کے بعد طالبان کی معاونت سے ہی پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی لیکن کچھ اختلافات کی وجہ سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔‘
افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان کا کہنا ہے کہ طالبان کی عبوری انتظامیہ نے پاکستان کو اس بات کی یقین دہائی کرائی ہے کے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان اور افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ کی یہ کوشش ہے کہ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے کیونکہ اسی طریقے سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دیرپا امن لایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’امید ہے کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں گی اور اس مسئلے کا پرامن حل نکالا جا سکے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستانی حکومت کے رابطے اب منقطع ہو چکے ہیں، اس پر پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے ایک مہینے کے سیز فائر کے اعلان کے بعد اس میں توسیع نہیں کی، لیکن کوششیں جاری ہیں کہ مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کی معاشی مشکلات کے حوالے سے کیے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ ’ان مشکلات کی ایک وجہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان کے بیرون ملک موجود اثاثوں کو منجمد کیے جانا تھا۔ جس کے بعد بیرونی دنیا سے افغانستان کو امداد اور فنڈز کی منتقلی بند ہو چکی ہے۔ تاہم چند روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کو پابندیوں سے استشنی دے دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے کئی ادارے اور او آئی سی بھی فنڈز کے سلسلے میں اقدامات اٹھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی اس فنڈ میں او آئی سی ممالک بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان عبوری انتظامیہ کے بین الااقوامی برادری اور امریکہ سے رابطوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
منصور احمد خان کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں انسانی بحران میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں اشیا کی قلت اور روزگار کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی اہم شعبوں کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ حالیہ اعلانات کی بدولت ان حالات کو مزید خراب ہونے سے روکا جا سکے گا اور آنے والے مہینوں میں حالات میں بہتری آئے گی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الااقوامی برادری افغانستان کی عبوری انتظامیہ اور اداروں سے رابطے جاری رکھے۔