افغان طالبان کا دکانوں میں موجود ڈمیز کا سر قلم کرنے کا حکم

افغانستان کی وزارت برائے نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھام نے ان ڈمیز کو اسلامی قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے مغربی صوبے ہرات میں یہ حکم صادر کیا ہے۔

افغان طالبان نے مبینہ طور پر کپڑوں کی دکانوں میں موجود ڈمیز (مجسموں) کے سر قلم کرنے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔

اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں وزارت برائے نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھام نے مغربی صوبے ہرات میں یہ حکم دیا ہے۔

اخبار ’دی ٹائمز‘ کے مطابق مقامی کاروباری اداروں نے طالبان کی جانب سے ڈمیز پر پابندی لگانے کے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نئے قوانین سے کمپنیاں مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں جن میں سے اکثر کو طالبان کی نئی حکومت کے تحت پہلے ہی مشکلات پیش آرہی ہیں۔

افغان وزارت کے مقامی سربراہ عزیز رحمان نے ان ڈمیز کو ’مجسمے‘ قرار دیا اور لوگوں پر اسلامی قانون کے خلاف ان کی پوجا کرنے کا الزام لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مرزیہ بابا کرخیل جو افغانستان میں فیملی کورٹ کے جج کے طور پر کام کرتی تھیں لیکن اب برطانیہ میں مقیم ہیں، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ طالبان کے اس حکم سے پتہ چلتا ہے کہ ’وہ واقعی کون ہیں۔‘

افغان خواتین کے حقوق کی مہم چلانے والی  بابا کرخیل نے مزید کہا: ’یہ وحشیانہ ہے۔ یہ بچوں جیسا طرز عمل ہے، کسی ملک کی قیادت کرنے والی حکومت کا نہیں۔ اس سے طالبان کا گھناؤنا چہرہ ظاہر ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر طالبان گڑیا کو قبول نہیں کر سکتے تو وہ افغانستان میں بولنے والی عورت کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔‘

بقول بابا کرخیل: ’اب جب میں خبریں پڑھتی ہوں تو مجھے ڈر لگتا ہے۔ طالبان تبدیلی کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے تمام مخالفین کو معاف کر دیں گے لیکن یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ ہمیں طالبان کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے حقوق حاصل ہونے چاہییں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خبردار کیا کہ طالبان افغان شہریوں کو زبردستی گھر کے اندر اور ’خاموش‘ رکھنے کی غرض سے ’ڈرانے‘ کی کوشش کر رہے تھے۔

بابا کرخیل نے مزید کہا کہ ’طالبان کا رویہ ان کے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ان کا اصل چہرہ دکھاتا ہے، لیکن دنیا خاموش کیوں ہے، یہ میرے ذہن میں ایک بڑا سوال ہے۔‘

55 سالہ باباکر خیل، جو خواتین ججوں کو افغانستان سے بازیاب کرانے کی مہم چلا رہی ہیں، نے اس سے قبل دی انڈی پینڈنٹ کو بتایا تھا کہ طالبان نے 1997 میں افغانستان اور 2007 میں پاکستان میں انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔

نومبر میں طالبان کی وزارت برائے نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے نئے قوانین نے افغانستان میں سوپ اوپیرا اور ڈراموں  کو خواتین اداکاروں کو شامل کرنے سے روک دیا تھا۔

ان ضوابط کے تحت ان تمام فلموں کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’اسلامی یا افغان اقدار‘ کے منافی ہیں اور ساتھ ہی حجاب کو تمام خواتین صحافیوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اگست2021 کے وسط میں امریکی اور برطانوی افواج کے دستبردار ہونے پر اقتدار میں آنے والے طالبان نے فوری طور پر اعلان کیا کہ افغان خواتین کو تمام کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا۔

طالبان نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے بغیر کام کرنے اور گھر سے باہر نکلنے اور لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا