دماغ کی تصاویر کے نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کتے الفاظ کی شناخت اور مختلف زبانوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
ہنگری میں محققین کو پتہ چلا ہے کہ مانوس یا غیر مانوس زبان سنتے ہوئے جانوروں کے دماغ کی سرگرمیاں مختلف ہوتی ہیں۔
تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ یہ پتہ چلا ہو کہ ایک غیر انسانی دماغ دو زبانوں میں فرق کر سکتا ہے۔
18 کتوں کو دماغ سکین کرنے والی مشین میں بے حس وحرکت لیٹنے کی تربیت دی گئی۔ یہاں انہیں ہنگری کی اور ہسپانوی دونوں زبانوں میں ’دا لٹل پرنس‘ نامی ناول سے اقتباسات سنوائے گئے۔
تحقیق میں شامل تمام کتوں نے تجربے سے پہلے اپنے مالکوں کی طرف سے دونوں میں سے صرف ایک زبان سن رکھی تھی۔
کتوں کو ملے جلے اقتباسات بھی سنوائے گئے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ الفاظ اور غیر واضح شکل میں بولے گئی الفاظ کے درمیان قطعی تمیز کر سکتے ہیں یا نہیں۔
جب محققین نے الفاظ یا غیر غیر واضح مواد کے معاملے میں ردعمل کا موازنہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ کتوں کے دماغ میں الگ الگ طرح کی سرگرمیاں جاری تھیں۔
محققین کو خاص طور پر یہ معلوم ہوا کہ کتوں کے دماغ میں آواز کو شناخت کرنے والے بنیادی حصے میں الگ الگ سرگرمی پائی گئی۔
وہاں یہ فرق اس بات سے آزاد تھا کہ آیا محرکات مانوس یا غیرمانوس زبان سے پیدا ہوئے تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کتے کا دماغ الفاظ کو غیر واضح الفاظ پر ترجیح دیتا ہے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ تقریر یا بولے گئے الفاظ کی شناخت کے علاوہ کتے کا دماغ ہسپانوی اور ہنگری کی زبان کے درمیان بھی فرق کر سکتا ہے۔
زبان سے متعلق سرگرمی کے پیٹرن آواز کو شناخت کرنے والے دماغ کے دوسرے حصے میں بھی پائے گئے۔ محققین کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کتے کی عمر جتنی زیادہ تھی اس کے دماغ میں مانوس اور غیرمانوس زبان میں تمیز کرنے کی صلاحیت اتنی زیادہ تھی۔
تحقیق کے مصنفین میں ایک لورا کوایا نے اپنے کتے کو بھی مطالعے میں شامل کیا جس کا نام کن کن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’چند برس پہلے میں میکسیکو سے ہنگری منتقل ہو گئی تا کہ ڈاکٹریٹ کے بعد کی اپنی تحقیق کے لیے ایوتووس لوریند یونیورسٹی کے جانوروں پر تحقیق کے شعبے کی نیورواتھولوجی آف کمیونیکیشن لیب میں کام کر سکوں۔ میرا کتا، کن کن، میرے ساتھ آیا۔ اس سے پہلے میں نے اس کے ساتھ صرف ہسپانوی زبان میں بات کی تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ آیا کن کن نے بوداپست میں ان لوگوں کا فرق محسوس کیا جو ایک مختلف زبان یعنی ہنگری کی زبان بولتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ لوگ، حتیٰ کہ بول نہ سکنے والے انسانی شیرخوار بچے بھی فرق محسوس کرتے ہیں۔ لیکن شاید کتے پروا نہیں کرتے۔ ہم کبھی اپنے کتوں کی توجہ اس طرف مبذول نہیں کرواتے کہ کسی مخصوص زبان کی آواز کیسی ہوتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ہم نے دماغی امیجنگ کے مطالعے کا منصوبہ بنایا۔‘
لورا کوایا نے بتایا: ’کن کن اور 17 دیگر کتوں کو دماغی سکینر میں بے حرکت رہنے کی تربیت دی گئی جہاں ہم نے انہیں ہسپانوی اور ہنگری کی زبان میں ’دا لٹل پرنس‘ کے اقتباسات سنوائے۔ تمام کتوں نے اپنے مالکان سے دو زبانوں میں سے صرف ایک ہی سنی تھی، لہذا اس طرح ہم ایک انتہائی مانوس زبان کا موازنہ بالکل نامانوس زبان کے ساتھ کر سکتے ہیں۔‘
’ہم نے کتوں کو ملے جلے اقتباسات بھی سنوائے جو مکمل طور پر غیر فطری لگتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ جان سکیں کہ آیا وہ بولی گئے واضح اور غیر واضح جملوں کے درمیان قطعی فرق کر سکتے ہیں۔‘
مطالعے کے شریک مصنف راؤل ہرنینڈز- پیریز نے مزید کہا: ’کتے کا دماغ انسانی دماغ کی طرح الفاظ اور غیر واضح الفاظ کے درمیان فرق کر سکتا ہے لیکن اس کا پتہ لگانے کی صلاحیت کا بنیادی طریقہ کار انسانوں میں تقریر یا الفاظ کی حساسیت سے مختلف ہوسکتا ہے: کیونکہ انسانی دماغ خاص طور پر بولے گئے الفاظ کو سمجھنے کی حساسیت رکھتے ہیں۔ کتے کا دماغ صرف آواز کے قدرتی پن کو شناخت کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہر زبان مختلف قسم کے سمعی یکسانیت کی خصوصیت رکھتی ہے۔ ہمارے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے کتے اس زبان کے ان سمعی یکسانیتوں کو سیکھتے ہیں جن کے ساتھ ان کا واسطہ پڑتا ہے۔‘
تحقیق کے سینیئر مصنف اٹیلا اینڈکس کے بقول: ’اس تحقیق نے پہلی بار دکھایا ہے کہ ایک غیر انسانی دماغ دو زبانوں میں فرق کر سکتا ہے۔ یہ دلچسپ امر ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زبان کو سمجھنے کے بارے میں سیکھنے کی صلاحیت انسانوں میں منفرد نہیں ہے۔‘
’پھر بھی، ہم نہیں جانتے کہ یہ صلاحیت کتوں کی خاصیت ہے یا غیر انسانی نسلوں میں عام ہے۔ درحقیقت یہ ممکن ہے کہ دماغ دسیوں ہزار سالوں میں بدل جائے یعنی جو کتے انسانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ بہتر زبان سننے والے بن گئے ہوں لیکن ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ مستقبل کے مطالعے کے ذریعے یہ معلوم کرنا ہو گا۔‘
لورا کوایا کا مزید کہنا تھا: ’اگر آپ سوچتے ہیں کہ بوداپست آنے کے بعد کن کن کیسا ہے تو وہ بالکل اسی طرح خوشی سے رہتا ہے جیسا کہ وہ میکسیکو سٹی میں تھا - اس نے پہلی بار برف دیکھی تھی اور اسے دریائے ڈینیوب میں تیراکی کا شوق ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اور اس کے دوست بولے جانے والی زبانوں کے ادراک کے ارتقا کو سامنے لانے میں ہماری مدد کرتے رہیں گے۔‘
یہ تحقیق ایوتووس لوریند یونیورسٹی کے جانوروں پر تحقیق کے شعبے کے محققین نے کی اور ’نیوروامیج‘ میں شائع ہوئی۔
© The Independent