طالبان حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں حریف گروپ داعش کی مقامی شاخ ’خراسان‘ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ملکی فوج میں خودکش بمبار دستے شامل کیے جائیں گے۔
طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ خودکش دستہ ایک یونٹ کے طور پر کام کرے گا۔
طالبان ماضی میں بھی مغربی اور اتحادی افواج کے خلاف لڑائی میں ایسے خودکش بمباروں استعمال کرتے رہے ہیں جنہیں وہ اکثر ’شہادت کے متلاشی‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اب اس خودکش سکواڈ کے ارکان کو خودکش بمبار کے طور پر استعمال کیا جائے گا یا فوج کے باقاعدہ ارکان کے طور پر۔
بلال کریمی نے کہا: ’شہادت کے متلاشی ارکان پر مشتمل اس خصوصی دستے کو زیادہ جدید اور خصوصی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘
تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ کس قسم کی کارروائیاں ہوں گی۔
طالبان کے گذشتہ سال اگست میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے داعش خراسان نے ملک میں کئی حملوں کیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
داعش خراسان نے گذشتہ سال اپنے ایک ہفتہ وار اخبار ’النبہ‘ کے اداریے میں لکھا تھا کہ طالبان صرف امریکہ کے لیے پراکسی جنگجو ہیں۔
داعش نے اپنے اداریے میں ’نئے طالبان‘ کو خطے میں داعش خراسان کو کمزور کرنے کے لیے ’اسلام کا بھیس‘ اپنانے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سٹینفرڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ کوآپریشن کے مطابق اگرچہ افغانستان میں داعش خراسان اور طالبان دونوں ہی سخت گیر سنی انتہا پسند گروہ ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ داعش خراسان نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ وہ (کفار سے) مذاکرات اور امن معاہدوں کی خاطر جہاد ترک کر رہے ہیں۔
سٹینفرڈ یونیورسٹی سینٹر کا کہنا ہے کہ: ’ان دونوں گروہوں کے درمیان دشمنی نظریاتی اختلافات اور وسائل کے حصول کے لیے لڑائی سے پیدا ہوئی۔ داعش خراسان نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ عالمگیر اسلامی عقیدے کی بجائے محض ایک نسلی اور قوم پرست بنیاد سے اپنی قانونی حیثیت حاصل کر رہے ہیں۔‘
© The Independent