افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد نیا دشمن ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ داعش خراسان نے تشدد کے ایک اور دور میں داخل ہونے کی دھمکی دی ہے۔ امریکی فوج اور سابق افغان حکومت کے جانے کے بعد ماضی کے عسکریت پسند طالبان اس مرتبہ ریاست کا کردار کریں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان نے امریکہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ تواتر کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے ادوار کے دوران انتہا پسند گروپ داعش کو قابو میں رکھا جائے گا۔
2020 کے امریکہ طالبان معاہدے میں طالبان نے ضمانت دی تھی کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
لیکن یہ واضح نہیں تھا آیا کہ طالبان اپنا وعدہ پورا کر سکتے تھے یا نہیں کیونکہ 15 اگست کو طالبان کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے داعش کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
جمعے کو قندوز میں ہونے والے بم حملے میں شیعہ برادری کی مسجد کے اندر 46 نمازی ہلاک ہوگئے۔ داعش نے دیگر حملے افغان دارالحکومت کابل اور مشرقی و شمالی صوبوں میں کیے جبکہ طالبان پر تقریباً روزانہ چھوٹے موٹے حملے کیے جاتے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں انتہا پسندی پر پروگرام کے ریسرچ فیلو اینڈریو مائنز کے بقول: ’تاریخی اعتبار سے داعش کے اکثر حملوں میں ریاست کو ہدف بنایا گیا۔ اب جب کہ امریکی اور عالمی موجودگی تقریباً ختم ہو چکی ہے، داعش ریاست کے پیچھے جائے گی اور ریاست طالبان ہیں۔‘
طویل عرصے سے چلے آنے والے حریف
طالبان اور داعش دونوں اسلامی قانون کی اپنی بنیاد پرستانہ تشریح کے تحت اقتدار کی حمایت کرتے ہیں لیکن ایسے نظریاتی اختلافات موجود ہیں جن کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔
طالبان کا موقف ہے کہ وہ افغانستان کی سرحدوں کے اندر رہ کر اسلامی ریاست قائم کر رہے ہیں۔ دوسری جانب داعش عالمی خلافت کی قائل ہے اور اس کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کو لازمی طور پر اس کی حمایت کرنی ہوگی۔
داعش طالبان کے قوم پرستانہ اہداف کو تضحیک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں خالص اسلامی تحریک نہیں سمجھتی۔ ان ہی وجوہات کی بنیاد پر داعش اور القاعدہ کی سخت دشمنی چلی آ رہی ہے۔
طالبان اور داعش دونوں خاص طور پر سخت اسلامی شرعی قانون کے حامی ہیں اور خود کش بمباروں جیسے ہتھکنڈوں سے کام لیتے رہے ہیں۔ لیکن جب داعش نے اور شام اور عراق کے بعض علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی تو مزید وحشی ہوگئی اور طالبان سے زیادہ سخت سزائیں دیں۔
کھیل کا اختتام
اب بھی داعش کے طاقتور خطرے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کابل میں دو بم حملے کیے گئے جن میں سے ایک ہوائی اڈے کے باہر اس وقت ہوا جب امریکی انخلا سے پہلے شہری انخلا عروج پر تھا۔
اس حملے میں 169 شہری اور 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے کنسلٹنٹ ابراہیم بہیس کہتے ہیں کہ ’جس پیمانے پر حملے کیے گئے اور ان کی شدت سے داعش کی صلاحیت اور ملک گیر سطح پر اس کی رسائی ظاہر ہوتی ہے جس پر طالبان کو حیرت ہوئی۔ داعش قلیل مدت کا خطرہ نہیں ہے۔‘
جب تک داعش کے پاس کسی علاقے پر دوبارہ قابض ہونے کی صلاحیت رہے گی وہ خطرہ بنی رہے گی۔ اس کے فوری مقاصد میں طالبان کو غیر مستحکم اور ان کی سلامتی کا محافظ ہونے کی ساکھ کو پارہ پارہ کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت کی داعش کی حکمت عملی آہستہ آہستہ آگے بڑھنا اور مخصوص طریقے سے کام لینا ہے۔
وہ قبائل دیگر گروپس سے رابطے کر رہے ہیں تا کہ ان کے لوگوں کو بھرتی کر سکیں۔ معتدل سلفیوں میں مخالفت ختم کی جا رہی ہے۔ جیلیں توڑی جا رہی ہیں لوگوں کو قتل کرنے سمیت طالبان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔
مائنز کے بقول: ’ان سب باتوں کو اکٹھا کیا جائے تو یہ عسکریت پسندی کا ایسا طریقہ بنتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے طالبان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔‘
فاؤنڈیشن فار دا ڈیفنس آف ڈیموکریسیز نامی تھنک ٹینک کی ویب سائٹ سے وابستہ بل روگیو نے مختلف نکتہ نظر پیش کیا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان اپنے طور پر داعش کو جڑوں سے اکھاڑ سکتے ہیں خواہ انہیں ان امریکی فضائی حملوں کی شکل میں امداد نہ بھی حاصل ہو جنہوں نے داعش کو تقریباً ختم کر دیا تھا۔
روگیو کا کہنا تھا کہ طالبان نے ثابت کیا ہے کہ وہ خفیہ معلومات جمع کرنے کے وسیع نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے داعش کے ٹھکانوں کو اپنے طور پر ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں عسکریت پسندانہ کارروائیوں کے دوران طالبان کے برعکس داعش کو پاکستان اور ایران میں محفوظ ٹھکانوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
گذشتہ ہفتے براہ راست مذاکرات سے پہلے طالبان داعش کے خلاف امریکی تعاون کو مسترد کر چکے ہیں۔ مستقبل میں داعش کی افغانستان میں سرگرمیوں کا انحصار زیادہ تر اس کی مزید لوگوں کو بھرتی کی صلاحیت اور آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی پر ہوگا۔
اپنے قیام کے بعد داعش طالبان ارکان کو اپنے ساتھ ملانے میں مصروف ہے۔ 2015 میں سابق طالبان کمانڈر عبدالرؤف خادم کو افغانستان میں داعش کا نائب مقرر کیا گیا تھا۔
داعش نے گروپ میں شامل ہونے کے لیے دوسرے طالبان جنگجوؤں کو بھی مبینہ طور پر مالی مراعات کی پیشکش کی۔
2020 میں جب داعش افغانستان میں سامنے آئی تو اس کی سربراہی حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے نئے رہنما کے پاس تھی۔ یہ گروپ اب طالبان کا ایک دھڑا ہے۔
طالبان کے سخت گیر ارکان داعش میں شامل ہو سکتے تھے۔ اس وقت جب طالبان قیادت اقتدار میں ہے، اسے اندرون ملک اور بیرونی سطح پر سمجھوتے کرنے ہوں گے۔
طالبان نے زیادہ جامع حکومت کا وعدہ کیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے جو عارضی نظام قائم کیا ہے اس میں صرف طالبان شامل ہیں۔
طالبان عالمی ریاستوں کے ساتھ جتنا زیادہ تعاون کریں گے وہ اتنے ہی زیادہ مجاہدین اور مزاحمتی جنگجوؤں کی ساکھ سے دور ہوں گے۔
مائنز کے مطابق: ’یہ وہ بنیادی شناخت ہے جو طالبان کھو دیں گے۔‘
اقلیتوں کے ساتھ سلوک
طالبان عسکریت پسندی سے حکومت کی طرف آچکے ہیں۔ ان حالات میں ان کی بنیادی آزمائش یہ ہوگی کہ آیا وہ ان اقلیتوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں یا نہیں جنہیں ماضی میں ان کے جنگجوؤں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے جیسے کہ شیعہ ہزارہ برادری۔
ہزارہ برادری تشدد کی کئی مہمات کا شکار رہ چکی ہے اور افغانستان میں تاریخ میں ہمیشہ نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ جب 1990 کی دہائی میں طالبان پہلی مرتبہ اقتدارمیں آئے انہوں نے ہزارہ برادری کا قتل عام کیا اور بعض صورتوں میں نسلی پشتونوں کے قتل عام پر جوابی کارروائی کی گئی۔
داعش نے ہزارہ برادری کو اس لیے ہدف بنایا ہے کیونکہ وہ شیعہ مسلمان ہیں۔ ان کے عبادت کے مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے وحشیانہ حملوں میں سینکڑوں ہزارہ کو قتل کیا۔
جمعے کو قندور میں مسجد پر حملے کے نتیجے میں طالبان کو موقع مل گیا ہے کہ وہ ریاستی طاقت کی اپنی ساکھ کو مضبوط بنائیں۔ طالبان نے تیزی سے کارروائی کی، خصوصی فورسز فوری طور پر موقعے پر پہنچ گئیں۔
حملے کی تحقیقات شروع کر دی گئیں اور صوبے کے پولیس کے سربراہ نے اقلیتی برادری کے بھائیوں کو’تحفظ فراہم کرنے کے بلندوبانگ دعوے کیے۔